اپ ڈیٹ: 09 January 2023 - 07:55

ٹرمپ کی ناکام امریکی صدارت کی پہلی سالگرہ

ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ آج امریکیوں کی اس آواز کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش نہیں کیا جا رہا کہ جیسے اس مہینے کے آغاز میں ایران میں ہونے والے احتجاج کو پیش کیا جا رہا تھا، حالانکہ ایران میں مظاہرین کی تعداد کم تھی اور انکا مطالبہ صرف اقتصادی مسائل کو حل کرنے پر مبنی تھا.آج امریکی و یورپی اور ان کے اتحادی ممالک کے ذرائع ابلاغ کی کوریج کا زاویہ کچھ اور ہی ہے
خبر کا کوڈ: ۱۴۲
تاریخ اشاعت: 10:16 - January 25, 2018

ٹرمپ کی ناکام امریکی صدارت کی پہلی سالگرہمقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ڈونالڈ ٹرمپ نے 20 جنوری 2017ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کی حیثیت سے حکمرانی کا آغاز کیا تھا۔ سال 2018ء میں ان کی صدارت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر امریکی عوام اور دیگر حکمران اداروں نے انہیں جو ’’تحفے‘‘ پیش کئے ہیں، ان میں سرفہرست عوام کا ملک گیر بھرپور احتجاج ہے جبکہ دوسرا بڑا تحفہ امریکی قانون ساز ادارے کی جانب سے ان کے پیش کردہ مجوزہ مالی اخراجات کے میزانیہ کی عدم منظوری ہے۔ اگر یہ بل امریکی سینیٹ منظور نہیں کرے گی تو ٹرمپ کی حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی پیسے نہیں ہوں گے اور یوں عملی طور پر امریکی حکومت مفلوج ہوکر رہ جائے گی، کیونکہ سرکاری ملازمین کام پر نہیں آئیں گے۔ یعنی ایک جانب عوام نے انہیں شٹ اپ کال دی ہے تو دوسری جانب امریکی حکومت کے سر پر سینیٹ نے شٹ ڈاؤن کی تلوار لٹکا دی ہے اور اس ’’تحفے‘‘ کا الزام انہوں نے حریف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی پر لگایا ہے، حالانکہ سرخ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے پانچ ڈیموکریٹ سینیٹرز نے ان کے مجوزہ مالی اخراجات کے بل کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ ان کی اپنی ری پبلکن پارٹی کے چار سینیٹروں نے ان کے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اس بل کی منظوری کے لئے ساٹھ سینیٹرز کی حمایت لازمی ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی اکثریت اس میں چند ترامیم چاہتی ہیں اور اس پر فریقین کسی درمیانی راہ کی تلاش میں ہیں۔ البتہ شٹ ڈاؤن یا حکومت کے مفلوج ہونے کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ دونوں جماعتوں کے سینیٹرز کو بہرحال درمیانی راہ نکالنی ہوگی اور امید ہے کہ جلد یا بدیر وہ مفاہمت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ لیکن امریکہ کی رائے عامہ ٹرمپ کے ساتھ رعایت برتنے کی روادار نہیں ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت ٹرمپ کی صدارت کے ایک سال کو ناکامی قرار دیتے ہیں۔

ان کی صدارت کی پہلی سالگرہ کی مناسبت سے دو سروے (پولز) کئے گئے اور دونوں کے نتائج کے مطابق امریکیوں کی اکثریت کی نظر میں انکی سالگرہ کا پہلا سال ناکامی کا سال تھا۔ سی بی ایس نیوز پول کے نتائج کے مطابق 58 فیصد نے ٹرمپ کی صدارت کے خلاف اور محض 37 فیصد نے ان کے حق میں رائے دی ہے۔ یاد رہے کہ ان کے حق میں رائے دینے والوں کی اتنی ہی تعداد یعنی سینتیس فیصد دوسرے سروے کے اعداد و شمار میں بھی بیان کی گئی ہے۔ البتہ مخالف رائے کی تعداد اٹھاون فیصد کی بجائے 53 فیصد بیان کی گئی ہے۔ دوسرا سروے نیشنل پبلک ریڈیو، پبلک براڈ کاسٹنگ سروس نیوز آور اور میرسٹ کالج کے ادارہ برائے رائے عامہ کے میرسٹ پول یعنی ان تین اداروں کی جانب سے مشترکہ طور پر کیا گیا تھا۔ سی بی ایس پول کے اعداد و شمار کے مطابق 61 فیصد کی نظر میں ٹرمپ امریکہ کو متحد رکھنے کی نسبت تقسیم زیادہ کر رہے ہیں۔ 53 فیصد کی نظر میں وہ خراب کارکردگی کے حامل صدر ہیں۔ 49 فیصد کی رائے ہے کہ ٹرمپ نے دنیا بھر میں امریکہ کی حیثیت کو کمزور کیا ہے اور محض 32 فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی حیثیت کو مضبوط کیا ہے۔ 55 فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ نقصان میں جا رہا ہے۔ دوسرے سروے جسے عرف عام میں میرسٹ پول کہا جا رہا ہے، اسکے مطابق ہر دس میں سے چھے امریکی کہتے ہیں کہ ٹرمپ امریکیوں کو تقسیم کر رہے ہیں۔ اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ خاص طور پر امریکہ کی خارجہ پالیسی اور امریکیوں کے نسلی تعلقات کی صورتحال ٹرمپ کی صدارت میں بہت ہی خراب ہوچکی ہے۔

نسل پرستی کے حوالے سے تو ٹرمپ ویسے ہی بدنام زمانہ امریکی ہیں۔ 1970ء کے عشرے سے ان کی نسل پرستی کا چرچا رہا ہے۔ انکا ریئل اسٹیٹ کا کاروبار ہے اور سمجھنے کے لئے ہم انہیں امریکہ کا ملک ریاض یا سیٹھ ریاض کہہ سکتے ہیں۔ ان کی کمپنی افریقی نژاد سیاہ فام امریکیوں کو اپارٹمنٹ کرائے پر دینے سے گریزاں رہی ہے۔ وہ امریکی جو میکسیکیو نژاد یا ہسپانوی نژاد ہیں، ان پر بھی بہت ہی بیہودہ الزامات لگا چکے ہیں۔ ہیٹی اور کینیا سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کے خلاف بھی نازیبا کلمات کہہ چکے ہیں اور تو اور سابق صدر باراک اوبامہ کے خلاف بھی نسلی متعصبانہ بیانات دے چکے ہیں اور یہ جھوٹ بھی کہہ چکے ہیں کہ اوبامہ امریکہ میں پیدا ہی نہیں ہوا بلکہ وہ تو افریقی ملک کینیا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے جوئے کے اڈوں پر بھی سیاہ فام ملازمین سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انکے ہوٹل کے ایک ملازم کے مطابق ٹرمپ نے اپنے ملازم سیاہ فام اکاؤنٹنٹ کو دیکھا تو کہا کہ ایک کالا میرے پیسے گن رہا ہے، مجھے اس سے نفرت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سست ہے لیکن یہ اس کا قصور نہیں ہے بلکہ سستی تو سیاہ فام افراد کی خاصیتوں میں سے ایک ہے۔ امریکہ میں ایک سفید فام عورت کے ساتھ زنا کیا گیا تھا اور اس کا جھوٹا الزام پانچ سیاہ فام اور لاطینی نژاد نوعمر لڑکوں پر لگا دیا تھا، جو ڈی این اے ٹیسٹ سے جھوٹا الزام ثابت بھی ہوا، لیکن ابھی فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز میں ایک اشتہار شایع کروا کر ان نوعمر لڑکوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا، حالانکہ بعد میں ثابت ہوا کہ وہ لڑکے بے گناہ تھے، لیکن صرف ان کی نسل کی وجہ سے ان سے نفرت کی جا رہی تھی۔ دسمبر 2015ء میں انہوں نے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا تھا اور صدر بننے کے بعد بہت سے مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکہ آنے پر پابندی کا حکم نامہ بھی جاری کیا تھا۔ مسلمانوں اور عربوں کے خلاف بھی نازیبا بیانات اور الزامات ان کے کھاتے میں ہیں۔

میکسیکن نژاد امریکی فیڈرل جج ٹرمپ یونیورسٹی کے حوالے سے ایک مقدمے کی سماعت کر رہے تھے تو ان پر بھی تعصب کا الزام لگا دیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ سفید فام نہیں تھا۔ ٹرمپ سیاہ فام اکثریتی امریکی علاقوں کو ڈسٹوپیئن وار زون کہتے رہے ہیں، یعنی ایسا جنگی علاقہ کہ جہاں ہر شے بہت ہی زیادہ بری ہے۔ اس وقت امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی، لاس اینجلس، فلاڈیلفیا ، شکاگو سمیت تقریباً ہر بڑے امریکی شہر میں جو مظاہرے ہو رہے ہیں، ان کا مرکزی نکتہ ویسے تو خواتین کے حقوق ہیں اور انہیں وومن مارچ ہی کہا جا رہا ہے، لیکن اس میں امیگریشن کا معاملہ اور خواتین پر جنسی حملوں سمیت دیگر مشکلات کے خلاف بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک امریکی خاتون نے احتجاج کے دوران جو پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، اس میں پوری دنیا سے کہا گیا تھا کے اے عزیز اہلیان جہاں! امریکہ کی طرف سے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں! قصہ مختصر یہ کہ یہ آج کے امریکہ کی ایک جھلک ہے۔ یہ امریکیوں کی اپنی رائے ہے اور اس احتجاج میں کسی دوسرے ملک کی نیابتی جنگ لڑنے والے غیر ملکی ایجنٹ نہیں گھسے ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں ٹرمپ حکومت کے مخالفین سڑکوں پر جمع ہیں، کیا امریکہ کی جمہوریت پسندی، آزادیوں اور اقدار کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بتا سکتے ہیں کہ اب ٹرمپ حکومت کو کیا کرنا چاہئے۔؟ کیا امریکی عوام کی رائے کے احترام میں حکومت سے مستعفی نہیں ہو جانا چاہیے؟ اس سوال کا جواب ٹرمپ حکومت اور امریکی اقدار کے قدردانوں پر قرض ہے۔

ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ آج امریکیوں کی اس آواز کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش نہیں کیا جا رہا کہ جیسے اس مہینے کے آغاز میں ایران میں ہونے والے احتجاج کو پیش کیا جا رہا تھا، حالانکہ ایران میں مظاہرین کی تعداد کم تھی اور انکا مطالبہ صرف اقتصادی مسائل کو حل کرنے پر مبنی تھا، جبکہ اس پرامن ایرانی احتجاج کو امریکی حکومت اور اس کی بعض اتحادی حکومتوں کے پٹھو خائنوں نے ہائی جیک بھی کیا تھا اور پرامن اور جائز احتجاج کو پرتشدد بنا دیا تھا۔ لیکن اس پر تشدد اور زرخرید ٹولے کو امریکہ اور دیگر ممالک کے ذرائع ابلاغ نے مثبت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا، اس کی حمایت کی اور ایران کے پورے نظام حکومت کو تبدیل کرنے کے لئے بھرپور مہم بھی چلائی۔ لیکن آج امریکی و یورپی اور ان کے اتحادی ممالک کے ذرائع ابلاغ کی کوریج کا زاویہ کچھ اور ہی ہے۔ آج کوئی نہیں کہہ رہا کہ ٹرمپ مستعفی ہو جائے اور امریکہ کا نظام حکومت تبدیل کر دیا جائے۔ آج سبھی خاموش ہیں! امریکیوں کے اس احتجاج نے امریکی بلاک کیجانب سے کئے جانے والے نام نہاد آزادی اظہار رائے کے دعوے کو بھی جھوٹا ثابت کر دکھایا ہے! ہمیں آج ٹرمپ حکومت اور اس کے اتحادی ممالک کی حکومتوں اور پٹھو ٹولوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ سرکار! دنیا دیکھ رہی ہے! ہمیں یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ دنیا ان مظلوم امریکیوں کے ساتھ ہیں، جو امریکی طبقہ امراء، نسل پرستوں اور جنسی درندوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔

پیغام کا اختتام/

آپ کا تبصرہ
مقبول خبریں