اپ ڈیٹ: 09 January 2023 - 07:55

امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۳

اسلام دشمنوں نے غیر صالح حکام کے ہاتھوں تفرقہ اندازی کی تلوار سے امت پیغمبر اسلام ؐ کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے۔
خبر کا کوڈ: ۲۳۱
تاریخ اشاعت: 9:57 - February 04, 2018

امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۳مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلام دشمنوں نے غیر صالح حکام کے ہاتھوں تفرقہ اندازی کی تلوار سے امت پیغمبر اسلام ؐ کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے۔

ایک بار پھر ۴ نومبر ۱۹۶۴ء کو صبح کے وقت سینکڑوں کمانڈوز اور چھاپہ مار چتربازوں کے ذریعہ امام خمینیؒ کےگھر کا محاصرہ کرلیا گیا اور گرفتار کرکے سیدھے تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے لےگئے اور طے شدہ پروگرام کے تحت پہلے استنبول اور پھر وہاں سے ترکی کے ہی ایک شہر "بورسا" منتقل کردیئے گئے اور دونوں ممالک کی انتظامیہ کے سخت پہرے میں ہر قسم کی سیاسی و اجتماعی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔

امام خمینیؒ ۹ جمادی الثانی ۱۳۸۵ھ ق (۵ ستمبر ۱۹۶۵ء) کو ترکی سے عراق بھیج دیئے گئے۔ امام خمینیؒ کو ترکی سے عراق بھیجنے کے کئی اسباب تھے؛ منجملہ ان کے عالمی رائے عامہ کے دباؤ علمائے اسلام و عوام کے اعتراضات، ایران و ترکی کی یکساں فضا کے زیر اثر، امام خمینیؒ کی سیاسی سرگرمیوں کو روکنے میں ترکی کی حکومت کےلئے مشکلات اور ان سب سے اہم خود نجف کے حالات اور حوزہ علمیہ نجف اشرف کی فضا پر چھایا ہوا سناٹا، جلا وطنی کےلئے مقام کی تبدیلی، اس فیصلے کا باعث بنا تھا۔

شاہی حکومت سوچ رہی تھی کہ امام خمینیؒ کو عراق جلاوطن کر دینے سے ایران کے اندر رائے عامہ کا دباؤ کم ہوجائےگا اور دوسری طرف براہ راست تحت نظر رکھنے کی ضرورت کے بجائے خود حوزہ علمیہ کی موجودہ فضا قدرتی طور پر امام خمینیؒکی سرگرمیوں کو محدود کردےگی۔

امام خمینیؒ کے نجف وارد ہونے کے ساتھ ہی انکے کام میں دوست و دشمن کیطرف سے رکاوٹیں اور مخالفتیں وسیع پیمانے پر شروع ہو گئیں اور یہ سلسلہ جب تک امام خمینیؒ عراق چھوڑ کر (فرانس کے شہر) پیرس ہجرت نہیں کرگئے کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا۔

دوسری طرف ایرانی و عراقی انتظامیہ کی سخت نگرانی کی وجہ سے امام خمینیؒ علی الاعلان اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اس سخت و نامساعد حالات کے باوجود امام خمینیؒ کی علمی و اجتماعی شخصیت اور آپ کی حکیمانہ روش کے سبب تھوڑی ہی مدت میں آپ کے حوزوی دروس کا بھی حوزہ علمیہ کے اعلی ترین دروس کے عنوان سے ذکر کیا جانے لگا۔

امام خمینیؒ حوزہ علمیہ نجف میں فقہ و اصول کے درس خارج کے دوران، ولایت فقیہ کے عنوان سے حکومت اسلامی کے نظری اصولوں کی تشریح و توضیح کے علاوہ، ایران اور اسلامی دنیا کے سیاسی مسائل کا سرگرمی کے ساتھ جائزہ لیتے رہے تھے۔

عراق میں امام خمینیؒ کے قیام کے بعد ایران کے کچھ انقلابی علماء پہنچے اور بعض نے قربانی سے کام لیتے ہوئے امام خمینیؒ کے کہنے پر ایران میں ہی رہنا پسند کیا تاکہ امام خمینیؒ کے ساتھ تحریک کا رابطہ ایران میں برقرار رہے اور ۱۵خرداد کے انقلابی اقدام کے ثمرات کی حفاظت کرتے رہیں۔

عراق میں امام خمینیؒ کی سکونت نے یہ موقع فراہم کردیا کہ آپ غیر ملکی اسکولوں و کالجوں  میں مقیم ایران کے مسلمان طلبا اور مؤمنین سے براہ راست، ماضی سے بہتر طور پر رابطہ برقرار کرسکیں اور خود اس چیز نے امام خمینیؒ کے نظریات اور انقلاب کے اہداف و مقاصد کو دوسروں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

صیہونیوں کے غاصبانہ حملوں اور عرب اسرائیل جنگوں کے دوران امام خمینیؒ نے فلسطینی مجاہدین آزادی کی تنظیموں کے سربراہوں سے متعدد ملاقاتیں کرنا لبنان میں اپنے خصوصی نمائندے بھیجنا، ان کی مادی و معنوی امداد کے علاوہ اہم تاریخی فتوی صادر کرنا کہ جس میں  غاصبانہ حملے کا نشانہ بننے والے ملکوں نیز فلسطینیوں کے انقلابی اقدام کی معنوی، اقتصادی اور فوجی امداد کو شرعا واجب قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ امام خمینیؒ کی ان کوششوں میں سے ہےکہ جو اس قدر وسیع پیمانہ پرعالم تشیع کے کسی اہم مرجع کیطرف سے پہلی بار عمل میں آئی تھیں۔

نجف میں امام خمینیؒ کی تقریریں اور پیغامات ہی تنہا وہ ذریعہ تھے کہ جن سے ملت ایران کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچ رہی تھی اور انقلاب کی لہروں کو دلوں میں زندہ رکھے ہوئے تھی۔ زیادہ تر ہر سال ۱۵خرداد کی خونین یاد کے موقع پر حوزہ کے نوجوان انقلابی طلبہ عمومی و خصوصی پروگراموں، مظاہروں اور سوگواری کی مجلسوں کے ذریعے غربت و تنہائی کے ساتھ اس دردناک واقعے کی یاد تازہ کرتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ کا نمایاں ترین واقعہ ۱۳۵۴ھ ش (۱۹۷۵ء) میں مدرسہ فیضیہ قم میں حوزہ علمیہ کے طلاب کا تین روزہ مظاہرہ تھا جس میں  پہلوی حکومت مردہ باد اور آیت ﷲ خمینی زندہ باد کے نعرے انقلاب کو کچلنے کو تمام تر کوششوں اور دھمکیوں کے باوجود قم میں ایک بار پھر تین دنوں تک گونجتے رہے اور آخرکار بغاوت کچلنے والی خصوصی فوج چھت اور دیوار کے ذریعے مدرسہ فیضیہ پر حملہ آور ہوئی اور تقریبا پانچ سو طلاب کو گرفتار کرلیا اور کچھ مدت کےلئے مدرسہ فیضیہ دوبارہ بند کردیا گیا۔ صرف امام خمینیؒ کی تقریر اور پیغامات تھے جو اس شجاعانہ اقدام کی حمایت کرتے نظر آرہے تھے۔

دوسری طرف اسلامی انقلاب کا سر کچلنے اور اسلامی تحریک کے رہبر کو جلاوطن کردینے کے بعد امریکہ نے بڑی تیزی سے ایران میں اپنے اصلاحی پروگرام بڑھانا شروع کردیئے تھے۔ مغرب پرستی اور اسلام کی خلاف ورزی کے جذبے کی ترویج و اشاعت اور مختلف طریقوں سے برائیوں  اور بےلگام آزادیوں کیطرف دعوت ملک کے اخبارات و رسائل نیز دیگر ذرائع ابلاغ کا اہم ترین مشغلہ تھا۔

پیغام کا اختتام/

آپ کا تبصرہ
مقبول خبریں