اپ ڈیٹ: 09 January 2023 - 07:55

ایٹمی معاہدے اور مشرق وسطی کی سلامتی کے متعلق جو بایڈن کے اظہارات پر تہران کا رد عمل

ناصر کنعانی نے اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ جو بایڈن نے اپنے مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران پر معاشی اور سفارتی دباو کی پالیسی کو جاری رکھا جائے گا جبکہ یہ بات امریکہ کی جانب سے ۲۰۱۵ کے ایٹمی معاہدے کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی جانب میلان رکھنے کے مسلسل اظہار کے برخلاف ہے۔
خبر کا کوڈ: ۵۶۶۴
تاریخ اشاعت: 17:49 - July 14, 2022

ایٹمی معاہدے اور  مشرق وسطی کی سلامتی کے متعلق جو بایڈن کے اظہارات پر تہران کا رد عملمقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے امریکی صدر کے اظہارات پر تہران کا رد عمل دیا۔ امریکی صدر نے روزنامہ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون میں ایران کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے اور مشرق وسطی کی صورتحال اور سلامتی کے متعلق اپنے خیالات قلمبند کئے تھے۔ ان خیالات کا ایسے وقت میں اظہار کیا گیا ہے کہ جب جو بایڈن اپنے اسرائیل اور مشرق وسطی کی سفر پر نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ 

ناصر کنعانی نے اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ جو بایڈن نے اپنے مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران پر معاشی اور سفارتی دباو کی پالیسی کو جاری رکھا جائے گا جبکہ یہ بات امریکہ کی جانب سے ۲۰۱۵ کے ایٹمی معاہدے کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی جانب میلان رکھنے کے مسلسل اظہار کے برخلاف ہے اور ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی ٹرمپ حکومت کی شکست خوردہ پالیسی کا تسلسل ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا: امریکہ کی سابقہ حکومت نے ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ طور پر خارج ہو کر عملی طور پر  اختلافات کو حل کرنے کے لئے کثیر الجہتی سفارتکاری کی اسٹریٹجی کو شدید نقصان پہنچایا اور امریکہ کی موجودہ حکومت بھی ایٹمی معاہدے میں واپسی اور گزشتہ حکومت کی غلطیوں کے ازالے پر مبنی نعروں اور دعوں کے باوجود پابندیوں اور معاشی دباو کو جاری رکھتے ہوئے اسی طرز فکر اور رویے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ 

کنعانی نے ایران کے خلاف اس شکست خوردہ پالیسی کا سہارا لینے کو مذکورہ مضمون میں بایڈن کے دعووں کے برخلاف کہا جن کے بقول وہ ایک مستحکم اور پر امن مشرق وسطی کی تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک مستحکم اور پر امن مشرق وسطی صرف اور صرف علاقائی ممالک کے مابین تفرقہ ڈالنے کی امریکی سیاست کو خاتمہ دینے، مشرق وسطی کو اسلحلے سے بھرنے سے ہاتھ اٹھانے، ملکوں کے اقتدار اور جغرافیائی حدود کے احترام، غاصب صہیونی ریاست کی غیر مشروط حمایت سے منصرف ہونے اور اسی طرح ایران فوبیا کی پالیسی کا خاتمہ کر کے ہی تشکیل پا سکتا ہے۔ جب تک یہ غلط پالیساں اور بحران پیدا کرنا کرنے کے رویے کی اصلاح نہیں ہوگی مغربی ایشیا میں عدم استحکام کا اصلی ذمہ دار امریکہ ہی ہوگا۔ 

ناصر کنعانی نے جوبایڈن کی جانب سے داعش کے خاتمے اور دہشتگردی کی روک تھام کے سلسلے میں طنزیہ انداز میں پیش کئے جانے جانے فخریہ اظہارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: داعش کی پیدائش کے اسباب کے بارے میں امریکہ کے سابق صدر اور سابق وزیر خارجہ کے اظہارات جو بایڈن کے اظہارات کے برخلاف عکاسی کرتے ہیں، مزید برآں یہ کہ امریکی حکومت کا داعشی اور تکفیری دہشتگردی کے ہیرو شہید قاسم سلیمانی کا بزدلانہ قتل کرنا خود امریکہ کا داعشی اور تکفیری دہشتگردوں کی سب سے بڑی مدد تھی۔ 
کنعانی نے مسئلے فلسطین کے حوالے سے امریکہ کی عملی سیاست جو بایڈن کے دعووں کے برخلاف قرار دیا جو امریکہ کی مغربی ایشیا میں استحکام اور سلامتی کی کوششوں کی باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:   مغربی ایشیا میں عدم استحکام اور منظم دہشتگردی کا سب سے بڑا سبب غاصب صہیونی حکومت ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس غاصب ریاست کی کھلی حمایت امریکی حکومت کے صلح پسندی کے غلط ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے۔ 

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ جو بایڈن کے مضمون میں موجود نکات مغربی ایشیا میں امریکی حکومت کی پالیسی اور سیاست کے متعلق ایک یکطرفہ اور غیر حقیقی تعبیر ہے اور اگر امریکی حکام حقیقت میں مغربی ایشیا میں استحکام اور امن چاہتے ہیں اور در نتیجہ اپنے اور دوسرے کے لئے ایک پر امن دنیا کے خواہاں ہیں تو بہتر ہے کہ دنیا کی نئی حقیقتوں کو سمجھیں اور یکطرفہ طور پر امریکی اقدار کو تھونپنے سے اجتناب کریں اور علاقے کے ملکوں کو اپنی اقدار، مفادات اور زمینی حقائق کی بنیاد پر اور علاقائی تعاون کے دائرے میں اپنے امن و امان اور اجتماعی مفادات کے لئے اقدامات کرنے کردیں۔

آپ کا تبصرہ
مقبول خبریں