اپ ڈیٹ: 09 January 2023 - 07:55

آل سعود کا خاندانی پس منظر؛ یہودیت سے سعودیت تک کا سفر (حصہ اول)

مرد خائی کے لاتعداد بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام المقارن تھا، المقارن کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا تھا، محمد کے بعد القارن کے ہاں اس کے دوسرے بیٹے نے جنم لیا جس کا نام سعود رکھا گیا، یہودی مردخائی کے اسی بیٹے کی نسل بعد میں آل سعود کہلائی۔
خبر کا کوڈ: ۱۵۸۰
تاریخ اشاعت: 18:21 - June 12, 2018

آل سعود کا خاندانی پس منظر؛ یہودیت سے سعودیت تک کا سفر (حصہ اول)سعودی عرب دنیا کی وہ واحد مملکت ہے جس کا نام کسی خاندان کے نام پر ہے، سعودی عرب پر فرمانروا خاندان آل سعود کا پس منظر کیا ہے؟ اس خاندان کے آباء و اجداد کون ہیں؟ اس خاندان کا تعلق کیا واقعی عرب کے مشہور خاندان عنزہ سے ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے؟ کیا آل سعود حقیقت میں عربی النسل ہیں؟ یا یہ کسی اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور کیا ان کے آباء و اجداد مسلمان تھے یا ان کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے تھا؟ یہ وہ تمام سوالات تھے جو تحقیق طلب تھے، چنانچہ اس تحقیق کا بیڑا محمد ساخر نے اٹھایا، محمد ساخر کی یہ ریسرچ اس کے لیے موت کا پروانہ لے کر آئی اور سعودی حکام نے اپنی اصل حقیقت سامنے آنے پر اس شخص کو سزائے موت دے دی۔

محمد ساخر کی ریسرچ

851 ہجری میں قبیلہ عنزہ کی ایک شاخ آل مسالیخ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے ایک تجارتی کارواں تشکیل دیا جس کا مقصد عراق سے غذائی اجناس خرید کر انہیں نجد لانا تھا، اس قافلے کا سالار سامی بن مثلول تھا، اس قافلے کا گزر جب بصرہ کے بازار سے ہوا تو قافلے کے کچھ لوگوں نے اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے بصرہ کے بازار کا رخ کیا، وہاں وہ ایک تاجر کے پاس پہنچے، یہ تاجر یہودی تھا، اس کا نام مردخائی بن ابراہیم بن موسیٰ تھا،خرید و فروخت کے دوران اس تاجر نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کا تعلق عنزہ قبیلے کی ایک شاخ المسالیخ سے ہے، یہ نام سننا تھا کہ یہودی کھڑا ہوا اور وہ ان میں سے ہر فرد سے بڑے تپاک کے ساتھ گلے ملا، اس نے بتایا کہ وہ خود اس قبیلے کی شاخ سے تعلق رکھتا ہے لیکن اپنے والد کے عنزہ قبیلے کے بعض افراد سے ایک خاندانی جھگڑے کی وجہ سے اس نے بصرہ میں آکر رہائش اختیار کر لی، اس نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ قافلے والوں کے تمام اونٹوں پر گندم، کھجور اور چاول کی بوریاں لاد دی جائیں، یہودی تاجر کے اس رویے نے قافلے والوں کو حیران کر دیا، وہ انتہائی خوش ہوئے کہ عراق میں ان کے ایک خاندان کا فرد مل گیا ہے، جو ان کے رزق کا وسیلہ ہے، انہوں نے اس کی ہر بات پر من و عن یقین کر لیا، اگرچہ وہ تاجر یہودی تھا لیکن چونکہ المسالیخ قبیلے کے لوگوں کو اناج کی شدید ضرورت تھی لہٰذا انہوں نے اس کی مہمان نوازی کو اپنے لیے غنیمت جانا، جب قافلہ اپنا واپسی کا رخت سفر باندھ رہا تھا تو اس نے اہل قافلہ سے درخواست کی کہ وہ اگر اسے بھی اپنے ہمراہ لے چلیں تو یہ اس کے لیے بڑی خوش بختی ہوگی، کیونکہ اس کی عرصہ دراز سے خواہش ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے وطن کو دیکھے، نجد پہنچ کر اس نے لوگوں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دی اور کئی افراد کو اپنی چرب زبانی کی بنا پر، اپنے حلقہ اثر میں لانے میں کامیاب ہوگیا، لیکن غیر متوقع طور پر اسے وہاں القسیم سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما شیخ صالح السلمان عبد اللہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اس مذہبی عالم کی تبلیغ کا دائرہ نجد، یمن اور حجاز تک پھیلا ہوا تھا، یہودی کو اس شخص کی مخالفت کی وجہ سے مجبوراً یہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور وہ القسیم سے الاحصاء آگیا، یہاں آکر اس نے اپنا نام تبدیل کر دیا اور «مردجائی» سے مرخان بن ابراہیم موسیٰ بن گیا، پھر وہ یہاں سے القطیف کے قریب ایک علاقہ دراعیہ میں قیام پذیر ہوگیا، یہاں اس نے مقامی باشندوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک من گھڑت کہانی کا سہارا لیا، کہانی یہ تھی کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں مسلمانوں اور کفار کے مابین لڑی جانے والی جنگ احد میں ایک کافر کے ہاتھ رسول پاک (ص) کی ڈھال لگ گئی، اس کافر نے یہ ڈھال بنو قنیقہ کے ہاتھ فروخت کر دی، بنو قنیقہ نے اسے ایک بیش بہا خزانہ سمجھتے ہوئے اپنے پاس محفوظ رکھا، یہودی تاجر نے اس علاقے کے بدؤوں کے درمیان اس طرح کی کہانیاں پھیلانا شروع کر دیں، ان من گھڑت کہانیوں کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ عربوں میں یہودی قبائل کا کتنا اثر ہے اور وہ کس قدر لائق احترام ہیں، اس نے اس طریقے سے عرب دیہاتیوں، خانہ بدوشوں، بدو قبائل اور سادہ لوح افراد میں اپنا ایک مقام و مرتبہ بنا لیا، آخر اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ مستقل طور پر القطیف کے قریب درعیہ قصبے میں قیام کرے گا اور اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے گا، اس کے خیال میں یہ علاقہ عرب میں بڑی یہودی سلطنت کے قیام کے لیے راہ ہموار کرے گا، اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے اس نے عرب کے صحرائی بدؤوں سے روابط شروع کر دیے، اس نے اپنے آپ کو ان لوگوں کا «ملک» یعنی بادشاہ کہلوانا شروع کردیا، اس موقع پر دو قبائل قبیلہ عجمان اور قبیلہ بنو خالد اس یہودی کی اصلیت کو جان گئے اور فیصلہ کیا کہ اس فتنے کو یہیں ختم کر دیا جائے، دونوں قبائل نے باہم اس کے مرکز درعیہ پر حملہ کردیا اور اس قصبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جبکہ مردخائی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور العارض کے نزدیک المالی بید غثیبہ کے نام سے ایک فارم میں پناہ لی۔ یہی العارض آج ریاض کے نام سے جانا جاتا ہے، جو سعودی عرب کا دارالخلافہ ہے، مرد خائی نے اس فارم کے مالک ۔۔ کہ جو بہت بڑا زمیندار تھا ۔۔ سے درخواست کی کہ وہ اسے پناہ دے، فارم کا مالک اتنا مہمان نواز تھا کہ اس نے مرد خائی کی درخواست قبول کرلی اور اسے اپنے یہاں پناہ دے دی لیکن مردخائی کو اپنے میزبان کے پاس ٹھہرے ہوئے ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اس نے اپنے محسن اور اس کے اہل خانہ کو قتل کردیا اور بہانہ یہ کیا کہ ان تمام کو چوروں کے ایک گروہ نے قتل کیا ہے، اس کے ساتھ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس افسوس ناک واقعہ سے قبل اس نے اس زمیندار سے اس کی تمام جائیداد خرید لی تھی، لہٰذا اب اس کا حق بنتا ہے کہ اب وہ یہاں ایک بڑے زمیندار کی حیثیت سے رہے، مرد خائی نے اس جگہ پر قبضہ جمالینے کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے اپنے پرانے کھوئے ہوئے علاقے کے نام پر آل درعیہ رکھا اور اس غصب شدہ زمین پر فوراً ہی ایک بڑا مہمان خانہ تعمیر کروایا جس کا نام اس نے مضافہ رکھا، یہاں رہتے ہوئے اس نے آہستہ آہستہ اپنے مریدین کا ایک حلقہ بنا لیا جنہوں نے لوگوں کے درمیان یہ غلط طور پر مشہور کرنا شروع کردیا کہ مرد خائی ایک مشہور عرب شیخ ہے، کچھ عرصے بعد اس نے اپنے اصل دشمن شیخ صالح سلمان عبداللہ التمیمی کو ایک منصوبے کے تحت قصبہ آل زلافی کی مسجد میں قتل کروادیا، اس اقدام کے بعد وہ ہر طرف سے مطئمن ہوگیا اور درعیہ کو اپنا مستقل ٹھکانابنا لیا، درعیہ میں اس نے کئی شادیاں کیں، جن کے نتیجے میں وہ درجنوں بچوں کا باپ بنا، اس نے اپنے ان تمام بیٹے بیٹیوں کے نام خالص عرب ناموں پر رکھے، یہودی مرد خائی کی یہ اولاد ایک بڑے عرب خاندان کی شکل اختیار کر گئی، اس خاندان کے لوگوں نے مرد خائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر قانونی طریقوں سے لوگوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کردیں اور ان کے فارموں پر قبضہ کرنا شروع کردیا، اب یہ اس قدر طاقتور ہوگئے کہ جو کوئی بھی ان کی شر انگیزیوں کے خلاف آواز اٹھاتا اسے قتل کروا دیتے، یہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے، اپنے اثر و رسوخ کو مزید بڑھانے کے لئے انہوں نے رابعہ عنزہ اور المسالیخ جیسے مشہور عرب قبائل کو اپنی بیٹیاں دیں، مرد خائی کے لاتعداد بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام المقارن تھا، المقارن کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا تھا، محمد کے بعد القارن کے ہاں اس کے دوسرے بیٹے نے جنم لیا جس کا نام سعود رکھا گیا، یہودی مردخائی کے اسی بیٹے کی نسل بعد میں آل سعود کہلائی۔

ترجمہ: فاروق طارق  

آپ کا تبصرہ
مقبول خبریں