اپ ڈیٹ: 09 January 2023 - 07:55

ایران کے انتباہات کے بعد امریکیوں کی پسپائی کا آغاز

اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مغربی ایشیا میں تعینات امریکی سینٹرل کمانڈ کو دہشت گرد گروہ قرار دیئے جانے کے محض ایک روز کے بعد امریکی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ایران امریکہ کے لئے فوری خطرہ نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ: ۳۷۹۹
تاریخ اشاعت: 20:02 - April 10, 2019

ایران کے انتباہات کے بعد امریکیوں کی پسپائی کا آغازمقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وزات دفاع کی ایک ترجمان ربیکا ریباریچ نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ پنٹاگون، ایران کو امریکہ کے لیے فوری طور پر خطرہ تصور نہیں کرتا۔

اس سے پہلے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا نام امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد ایران نے بھی اعلان کیا تھا کہ آج کے بعد سے امریکی فوجی سینٹرل کمان سینٹ کام اور مغربی ایشیا میں تعینات تمام امریکی فوجیوں کو دہشت گرد سمجھا جائے گا۔

تہران کا یہ فیصلہ، اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کے فوجی ادارے سے متعلق حکومت امریکہ کے خطرناک اور غیر قانونی فیصلے کے خلاف ایران کے جوابی اقدامات کے حوالے سے تشویش کا باعث بنا ہے۔

یہ تشویش یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ خطے میں قائم امریکی فوجی اڈے اور ہزاروں امریکی فوجی ایران کی مسلح افواج کے نشانے پر ہیں اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے خلاف کسی بھی دشمنی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی حمایت میں ایران کے ٹھوس موقف اور قومی اتحاد کے مظاہرے کے بعد، امریکیوں کو اپنے ابتدائی موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

بہرحال امریکہ کے اندر پائے جائے والے اختلافات بھی پینٹاگون کے تازہ موقف میں موثر رہے ہیں کہ ایران امریکہ کے لیے فوری خطرہ نہیں۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے اس سے پہلے خبریں دی تھیں کہ پنٹاگون اور سی آئی اے ایران کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست شامل کیے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی سیکورٹی ٹیم میں تبدیلی نیز وزارت خارجہ میں مائیک پومپیؤ اور قومی سلامتی کے مشیر کے عہدیدے پر جان بولٹن جیسے انتہا پسندوں اور جنگ کے خواہاں افراد کے آنے  کے بعد امریکی صدر نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے خلاف غیر منطقی اقدام کا اعلان کر ہی دیا۔

لیکن امریکی صدر کے اس فیصلے کی خود امریکہ کے اندرونی حلقوں میں بھی مخالفت کی جا رہی ہے۔

خطے میں موجود امریکہ کے فوجی اور انٹیلی جینس افسران اور واشنگٹن میں براجمان ان کے اعلی عہدیدار، امریکی صدر اور ان کے انتہا پسند مشیروں سے کہیں زیادہ، اس فیصلے کے خطرات کو محسوس کر رہے ہیں۔

امریکہ کی سابق نائب وزیر خارجہ ونڈی شرمین نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی دوسرے ملک کی فوج کو دہشت گرد قرار دے کر دراصل ہم نے خطے میں اور خاص طور سے ایران کے پڑوسی ملک عراق میں موجود اپنے فوجیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

پیغام کا اختتام/

آپ کا تبصرہ
مقبول خبریں