مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ صدر حسن روحانی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں جہاں ایران کا موقف کھل کر بیان کیا وہیں شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی دو ٹوک الفاظ میں حمایت کا بھی اعلان کیا گیا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے بتایا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ایٹمی معاہدے کے دو رکن ملکوں چین اور روس کے صدور کے ساتھ صدر حسن روحانی کی ملاقات کا موقع بھی فراہم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ان ملاقاتوں میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور دیگر فریقوں کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد کے طریقہ کار کے بارے میں بھی تبادلہ خیال ہوا۔شنگھائی تعاون تنظیم کا اٹھارہواں سربراہی اجلاس نو اور دس جون کو چین کے شہر چنگ داؤ میں منعقد ہوا تھا جس میں صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی بھی شریک تھے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کی ضرورت تاکید اور معاہدے کے تمام فریقوں سے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی اپیل کی گئی ہےچین کے صدر شی جن پھنگ نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان کا ملک ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے اور اس پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
انہوں نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے امریکہ کو چھوڑ کر ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے والے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ اس معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام سن دوہزار ایک میں عمل میں آیا تھا اور اس وقت روس، چین، قزاقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان اور ہندوستان اس تنظیم کے رکن ممالک ہیں جبکہ ایران، افغانستان، بیلاروس، اور منگولیا کو مبصر کا درجہ حاصل ہے۔
پیغام کا اختتام/