مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کونسل کے سربراہ کمال خرازی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یورپ کو چاہئے کہ وہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے لئے کوئی چارہ کار تلاش کرے، کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کے خواہشمند ملکوں کے پاس امریکا کی اقتصادی پابندیوں سے آزاد ہو کر ایران کے ساتھ تجارت کرنے کے بہت سے راستے اور مواقع موجود ہیں-
ایران کی خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کونسل کے سربراہ سید کمال خرازی نے جو ایک اعلی سطحی سیاسی وفد کے ہمراہ اسپین کے دورے پر تھے ایفے نیوز ایجنسی سے اپنے انٹرویو میں کہا کہ امریکی پابندیوں کے دور میں ایران نے مشکلات پر غلبہ حاصل کیا تھا-
ان کا کہنا تھا کہ اگر یورپ ایٹمی معاہدے کے تحفط کے لئے عملی اقدامات انجام نہیں دیتا تو ایران کے پاس اس معاہدے میں باقی رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جائے گا- ایران کی خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کونسل کے سربراہ کمال خرازی نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کی منسوخی یورپ کے نقصان میں ہے-
دوسری جانب ایران کے سینیئر ایٹمی مذاکرات کار اور نائب وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں ایران کے باقی رہنے کا دار و مدار یورپی ملکوں چین اور روس کے اقدامات پر ہے-
ایرانی نائب وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ توقع ہے کہ دوسرے فریق ایرانی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ ایران کے ساتھ بین الاقوامی تعاون کی راہ بھی ہموار کریں گے۔
انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ ایران نے یورپی ملکوں سے بارہا اپنے مطالبات اور توقعات کا اظہار کیا ہے، کیا ایران روس سے بھی کوئی مطالبہ رکھتا ہے، کہا کہ ایران اور روس کے تعلقات ایٹمی معاہدے سے بالاتر ہیں- سید عباس عراقچی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے تعلق سے ماسکو کا موقف بہت ہی مضبوط ہے، کہا کہ روس نے ہمیشہ کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں درج ایران کے مفادات کو جیسے بھی ہو پورا کیا جائے-
اس درمیان ایران کے نائب وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی ریابکوف سے ملاقات میں ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے طریقہ کار اور اہم علاقائی مسائل پر بات چیت کی-
ایران اور روس کے نائب وزرائے خارجہ نے ایرانی عوام کے مسلمہ حقوق کی تکمیل کے لئے ایٹمی معاہدے کے باقی فریقوں کی جانب سے ضروری پروگرام اور چارہ کار پیش کئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا-
پیغام کا اختتام/