امام حسین علیہ السلام کا خاندان:
حضرت امام حسین علیہ السلام کا خاندان شجرۂ طیبہ کا سب سے واضح نمونہ ہے۔ جانشین رسول حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام آپ کے والد گرامی اور حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ آپ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ حضرت خاتم الانبیا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امام حسین علیہ السلام کے نانا اور حضرت ابو طالب ان کے دادا ہیں۔ امام حسین علیہ السلام جمعرات تین شعبان سنہ چار ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے اور نبوت و امامت کی درسگاہ میں برسوں تک تعلیم تربیت پاکر دس محرم سنہ اکسٹھ ہجری کو اپنے نانا کے دین کی حفاظت کرتے ہوئے کربلا میں بھوکے پیاسے شہید ہوئے۔
آپ کا نام:
اسلامی تعلیمات میں بچے کے نام کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے کیونکہ نام کے کثیر معنوی اثرات ہیں اور انسان کی شخصیت کی تشکیل میں نام بہت زیادہ مؤثر ہے۔ ہمارے معصوم اماموں کا ایک اعزاز و افتخار یہ ہے کہ ان کے اسماء و القاب، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منتخب کیے ہیں۔
روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد جبرئیل امین نازل ہوئے اور انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخاطب ہو کر عرض کی کہ اللہ تعالی آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ چونکہ آپ سے علی علیہ السلام کی نسبت موسی سے ہارون کی نسبت جیسی ہے اور علی آپ کے لیے ویسے ہی ہیں جس طرح ہارون، موسی کے لیے تھے اس لیے اپنے اس بیٹے کا نام ہارون کے چھوٹے فرزند شُبَیر کے نام سے موسوم کیجیے جس کا عربی میں ترجمہ حسین ہوگا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالی کا پیغام ملتے ہی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے علی و فاطمہ (علیہما السلام) کیا آپ دونوں نے اپنے نو مولود کے لئے کوئی نام منتخب کیا ہے؟ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اس امر میں آپ پر سبقت نہیں لیا کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خداوند متعال فرماتا ہے کہ اس مبارک مولود کا نام حسین رکھیے۔
امام حسین علیہ السلام کے القاب:
تاریخ اور روایات میں امام حسین علیہ السلام کے لیے متعدد القاب منقول ہیں جن میں رشيد، طَيب، وفي، زکي، سعيد اور سید بہت مشہور ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں "سَيدُ شَبابِ اَہلِ الجَنَّہ" (جوانان جنت کے سردار) کا لقب عنایت فرمایا جبکہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے "سَيدُالشُہداء" کا لقب عطا کیا۔ اس کے علاوہ بھی ان کے بہت سے القاب مذکور ہیں جن میں سے ہر ایک امام حسین علیہ السلام کے کسی نہ کسی کمال پر دلالت کرتا ہے۔ ان کے لیے السبط الثانی، الامام الثالث، فرحۃ الرسول، التابع لمرضات اللہ اور مبارک جیسے القاب اور ابوعبداللہ اور ابوالائمہ جیسی کنیات بھی منقول ہیں۔
امام حسین علیہ السلام رسول اللہ ﴿ص﴾کے عہد میں:
امام حسین علیہ السلام نے اپنی عمر کے چھے سال، چھے مہینے اور چوبیس دن اپنے پیارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود ذی جود کے سایۂ عاطفت میں گزارے۔ اس دوران ہر وقت اور ہر لمحہ ان پر آنحضرت کی خاص عنایت رہی اور آپ نے اپنے بھائي امام حسن علیہ السلام کے ساتھ مل کر اخلاقی فضائل کے ابتدائی دروس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سیکھ لیے تھے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت امام حسین سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے جس کا انھوں نے متعدد مواقع پر برملا اظہار بھی کیا۔ اس کی ایک مثال یہ حدیث شریف ہے: "حسینٌ مِنّی و انا من الحسین" (حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔)
امام حسین علیہ السلام کی امامت:
معاویہ کی دسیسہ کاریوں کے سبب امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امت اسلامی کی امامت کا منصوص عہدہ امام حسین علیہ السلام کو حاصل ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی حیات طیبہ کے دوران ہی امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی امامت پر تصریح فرما دی تھی؛ آپ نے دونوں شہزادوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ھما امامان قاما او قعدا (یہ دونوں امام ہیں چاہے قیام کریں یا صلح کریں۔)
سنہ پچاس ہجری میں معاویہ بن ابوسفیان نے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ صلحنامے کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے نہ صرف اس صلحنامے کی تمام شقوں کی خلاف ورزی کی بلکہ زہر دلوا کر امام حسن کو شہید کروا دیا۔
امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کا الہی عہدہ امام حسین علیہ السلام کو ملا جو دس محرم سنہ اکسٹھ ہجری تک جاری رہا۔ امام حسین علیہ السلام نے جب امامت کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت معاویہ عملی طور پر پورے عالم اسلام پر قابض ہو چکا تھا اور اس کے والیان حکومت اسلامی معاشرے کی بنیادوں اور اسلامی قوانین کو تباہ کرنے میں مصروف تھے۔ ایسی صورت حال میں امام حسین علیہ السلام نے امامت کی عظیم ذمہ داری سنبھالی اور جب بھی کوئی موقع ملتا وہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتے اور لوگوں کو مستقبل کے بارے میں امید دلایا کرتے تھے تاہم اسلامی حکومت کے تحفظ اور مسلمانوں کے درمیان انتشار و تفرقہ پھیلنے کا سد باب کرنے کی غرض سے بہت سے کوتاہیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے بھی خاموش رہا کرتے تھے یہاں تک کہ معاویہ کو بھی موت نے آ لیا تاہم اس نے مرنے سے پہلے اپنے فاسق و فاجر، شرابی و تارک نماز اور زنا کار بیٹے یزید کو ولیعہد مقرر کیا اور اس کے لئے بیعت طلب کی۔ بہرحال یزید کی حکومت آگئی اور امام حسین علیہ السلام جو یزید کو بخوبی جانتے تھے، اس بات پر راضی نہ تھے کہ اسلامی معاشرے کی باگ ڈور یزید جیسے شخص کو سونپ دی جائے۔
معاویہ نے یزید کو وصیت کی تھی کہ وہ حسین بن علی علیھما السلام، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر سے بیعت طلب نہ کرے مگر اس نے شام میں تخت نشین ہوتے ہی خط کے ذریعے والئ مدینہ ولید بن عتبہ کو حکم دیا کہ وہ امام حسین سے بیعت لے اور اگر وہ بیعت نہ کریں تو انہیں قتل کر دے۔ ولید نے امام حسین علیہ السلام سے یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا تو انھوں نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ مجھ جیسا، یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اور یہیں سے امام حسین کے تاریخی قیام اور انقلاب کا آغاز ہوا۔
امام حسين عليہ السلام اور عاشورا:
تحریک عاشورا در حقیقت ایک عظیم انقلاب تھا کہ جس کا مقصد احکام دین کا احیاء اور مختلف دینی اور سیاسی انحرافات کا خاتمہ تھا۔
امام حسین علیہ السلام رجب المرجب سنہ ساٹھ ہجری کو مدینۂ منورہ سے مکۂ معظمہ کی جانب کوچ کر گئے اور تقریباً چار مہینے تک مکے میں ٹہرے اور جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ یزید کے افراد حاجیوں کے بھیس میں انھیں قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انھوں نے حج کو عمرے میں بدل کر کوفے کا ارادہ کیا۔ کسی نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: یزیدی لشکر کے بعض گماشتے حرم کی حدود میں مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور میں پسند نہیں کرتا کہ میرے قتل کی وجہ سے حرم امن کی بے حرمتی ہو۔
امام حسین علیہ السلام کی کوفے کی جانب روانگي:
کوفے کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں امام حسین علیہ السلام کو خط بھیجے تھے اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ وہاں آ کر ان لوگوں کی ہدایت فرمائيں۔ مکے اور مدینے کے ناموافق حالات دیکھنے کے بعد حضرت سید الشہدا اپنے اہل خانہ اور اصحاب و انصار کے ساتھ کوفے جانے کا فیصلہ کیا تاہم وہ ابھی کوفے پہنچے بھی نہیں تھے کہ کچھ منزلیں پہلے ہی یزیدی لشکر نے انہیں روک دیا اور یزید کی بیعت کرنے کا مطالبہ کیا تاہم امام نے کہا کہ وہ ذلت کی زندگي پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ امام مظلوم کے انصار و اعوان کی تعداد بہت کم تھی مگر قیام واجب تھا چنانچہ اس چھوٹے سے لشکر نے کربلا کے چٹیل میدان کو اسلام کی بہار میں تبدیل کر دیا، اپنے خون سے پھولوں کا ایسا گلستاں لگایا جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا، ان گلگوں قبا شہیدوں کے خون نے یزیدیت کو کربلا کے میدان میں دفن کر کے اسلام کو حیات جاودانی عطا کر دی۔
امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے خون نے قیامت تک کے لیے اسلام کو ہر طرح کی سازش اور فتنے سے محفوظ کر دیا۔
دس محرم سنہ اکسٹھ ہجری میں امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں چھپن سال پانچ ماہ اور چھے دن کی عمر میں جام شہادت نوش کیا اور اسی مقام پر دفن ہوئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ محرم کے اعمال:
محرم کا مہینہ اہلبیت اور ان کے پیروکاروں کے لئے رنج و غم کا مہینہ ہے ۔امام علی رضا -سے روایت ہے کہ جب ماہ محرم آتا تھا تو کوئی شخص والد بزرگوار امام موسٰی کاظم - کو ہنستے ہوئے نہ پاتا تھا ،آپ پر حزن و ملال طاری رہا کرتا اور جب دسویں محرم کا دن آتا تو آہ وزاری کرتے اور فرماتے کہ آج وہ دن ہے جس میں امام حسین - کو شہید کیا گیا تھا ۔ پہلی محرم کی رات سید نے کتاب اقبال میں اس رات کی چند نمازیں ذکر فرمائی ہیں :
﴿۱﴾سورکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد اور سورئہ توحید پڑھے :
﴿۲﴾دورکعت نماز جس کی پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ انعام اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ یاسین پڑھے :
﴿۳﴾دو رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورئہ توحید پڑھے :
روایت ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ جو شخص اس رات دو رکعت نماز ادا کرے اور اس کی صبح جو کہ سال کا پہلا دن ہے روزہ رکھے تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جو سال بھر تک اعمال خیر بجا لاتا رہا ،وہ شخص اس سال محفوظ رہے گا اور اگر اسے موت آجائے تو وہ بہشت میں داخل ہو جائے گا ،نیز سید نے محرم کا چاند دیکھنے کے وقت کی ایک طویل دعا بھی نقل فرمائی ہے۔
پہلی محرم کا دن اسلامی سال کا پہلا دن ہے اس کے لئے دو عمل بیان ہوئے ہیں ۔
﴿۱﴾روزہ رکھے،اس ضمن میں ریان بن شبیب نے امام علی رضا -سے روایت کی ہے ۔ کہ جو شخص پہلی محرم کاروزہ رکھے اور خدا سے کچھ طلب کرے تو وہ اس کی دعا قبول فرمائے گا ،جیسے حضرت زکریا -کی دعا قبول فر مائی تھی۔
﴿۲﴾امام علی رضا (ع) سے روایت ہوئی ہے کہ حضرت رسول پہلی محرم کے دن دو رکعت نماز ادا فرماتے اور نماز کے بعد اپنے ہاتھ سوئے آسمان بلند کر کے تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے تھے :
اَللّٰھُمَّ ٲَنْتَ الْاِلہُ الْقَدِیمُ، وَھذِہِ سَنَۃٌ جَدِیدَۃٌ، فٲَسْٲَلُکَ فِیھَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطانِ اے اللہ!
تو معبود قدیمی ہے اور یہ نیا سال ہے جو اب آیا ہے پس اس سال کے دوران میں شیطان سے بچاؤ کا سوال کرتاہوں اس
وَالْقُوَّۃَ عَلَی ھذِہِ النَّفْسِ الْاََمَّارَۃِ بِالسُّوئِ وَالاشْتِغالَ بِما یُقَرِّبُنِی إلَیْکَ یَا کَرِیمُ،
نفس پر غلبے کا سوال کرتا ہوں جو برائی پر آمادہ کرتا ہے اور یہ کہ مجھے ان کاموں میں لگا جو مجھے تیرے نزدیک کریں اے مہربان
یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ یَا عِمادَ مَنْ لا عِمادَ لَہُ یَا ذَخِیرَۃَ مَنْ لا ذَخِیرَۃَ لَہُ یَا حِرْزَ
اے جلالت اور بزرگی کے مالک اے بے سہاروں کے سہارے اے تہی دست لوگوں کے خزانے اے بے کسوں کے نگہبان
مَنْ لاَ حِرْزَ لَہُ یَا غِیاثَ مَنْ لاَ غِیاثَ لَہُ یَا سَنَدَ مَنْ لاَ سَنَدَ لَہُ یَا کَنْزَ مَنْ لاَ کَنْزَ لَہُ
اے بے بسوں کے فریاد رس اے بے حیثیتوں کی حیثیت اے بے خزانہ لوگوں کے خزانے اے بہتر آزمائش کرنے والے
یَا حَسَنَ الْبَلائِ یَا عَظِیمَ الرَّجائِ یَا عِزَّ الضُّعَفائِ یَا مُنْقِذَ الْغَرْقیٰ یَا مُنْجِیَ الْھَلْکَیٰ
اے سب سے بڑی امید اے کمزوروں کی عزت اے ڈوبتوں کو تیرانے والے اے مرتوں کو بچانے والے اے نعمت والے
یَا مُنْعِمُ یَا مُجْمِلُ یَا مُفْضِلُ یَا مُحْسِنُ ٲَنْتَ الَّذِی سَجَدَ لَکَ سَوادُ اللَّیْلِ وَنُورُ النَّھارِ
اے جمال والے اے فضل والے اے احسان والے تو وہ ہے جس کو سجدہ کرتے ہیں رات کے اندھیرے دن کے اجالے چاند کی
وَضَوْئُ الْقَمَرِ، وَشُعاعُ الشَّمْسِ، وَدَوِیُّ الْمائِ، وَحَفِیفُ الشَّجَرِ یَا اﷲُ لاَ شَرِیکَ
چاندنیاں سورج کی کرنیں پانی کی روانیاں اور درختوں کی سرسراہٹیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں اے اللہ ہمیں لوگوں نیک گماں
لَکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنا خَیْراً مِمَّا یَظُنُّونَ وَاغْفِرْ لَنا مَا لاَ یَعْلَمُونَ وَلاَ تُؤاخِذْنا بِما یَقُولُونَ
سے بھی زیادہ نیک بنا دے لوگ ہم کو اچھا سمجھتے ہیں ہمارے وہ گناہ بخش جن کو وہ نہیں جانتے اور جو کچھ وہ ہمارے بارے میں کہتے ہیں
حَسْبِیَ اﷲُ لاَ إلہَ إلاَّ ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ، وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ
اس پرہماری گرفت نہ کر اللہ کافی ہے اسکے سوا کوئی معبود نہیں میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے ہمارا ایمان
آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَمَا یَذَّکَّرُ إلاَّ ٲُولُوا الْاََلْبابِ، رَبَّنا لا تُزِغْ
ہے کہ سب کچھ ہمارے رب کیطرف سے ہے اور صاحبان عقل کے سوا کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتا اے ہمارے رب ہمارے دلوں
قُلُوبَنا بَعْدَ إذْ ھَدَیْتَنا وَھَبْ لَنا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَۃً إنَّکَ ٲَنْتَ الْوَھَّابُ ۔
کو ٹیڑھا نہ ہونے دے جبکہ ہمیں تو نے ہدایت دی ہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر بے شک تو بہت عطا کرنے والا ہے ۔
شیخ طوسی(رح) نے فرمایا کہ محرم کے پہلے نو دنوں کے روزے رکھنا مستحب ہے مگر یوم عاشورہ کو عصر تک کچھ نہ کھائے پیئے، عصر کے بعد، تھوڑی سی خاک شفا سے فاقہ شکنی کرے، سید نے پورے ماہ محرم کے روزے رکھنے کی فضیلت لکھی اور فرمایا ہے کہ اس مہینے کے روزے انسان کو ہر گناہ سے محفوظ رکھتے ہیں۔﴿۱﴾
تیسری محرم کا دن:
یہ وہ دن ہے جس دن حضرت یوسف -قید خانے سے آزاد ہوئے تھے ،جو شخص اس دن کا روزہ رکھے حق تعالیٰ اس کی مشکلات آسان فرماتا ہے اور اس کے غم دور کر دیتا ہے نیز حضرت رسول سے روایت ہوئی ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنے والے کی دعا قبول کی جاتی ہے ۔
نویں محرم کا دن:
یہ روز تاسوعا حسینی ہے ،امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے کہ نو﴿۹﴾ محرم کے دن فوج یزید نے امام حسین -اور ان کے انصار کا گھیراؤ کر کے لوگوں کو ان کے قتل پر آمادہ کیا ابن مرجانہ اور عمر بن سعد اپنے لشکر کی کثرت پر خوش تھے اور امام حسین(ع) کو ان کی فوج کی قلت کے باعث کمزور و ضعیف سمجھ رہے تھے ۔انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اب امام حسین (ع) کا کوئی یار و مددگار نہیں آسکتا اور ﴿۱﴾ سوائے یوم عاشور کے کیونکہ اس دن کا روزہ مکروہ ہے اور بعض کے نزدیک حرام ہے۔
عراق والے ان کی کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے امام جعفر صادق(ع) نے یہ بھی فرمایا کہ اس غریب و ضعیف یعنی امام حسین (ع) پر میرے والد بزرگوار فدا وقربان ہوں ۔
التماس دعا
پیغام کا اختتام/