مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، ایس ای سی پی کے جاری کردہ ریگولیشنزایف اے ٹی ایف کی سفارشات کے عین مطابق ہیں جن پر پاکستان کو بطور منی لانڈرنگ پر ایشیا پسیفک گروپ کے رکن کی حیثیت سے عمل کرنا لازمی ہے۔
ان ریگولیشنز کے نافذ العمل ہونے کے بعد ایس ای سی پی کی جانب سے سکیورٹیز بروکرز، بیمہ کمپنیوں، غیر بینک، مالیاتی کمپنیوں اور مضاربہ کے لیے اس موضوع پر پہلے سے جاری شدہ نوٹیفیکیشن اور سرکلرز کالعدم ہو گئے ہیں۔
مجوزہ ریگولیشنز میں مندرجہ بالا تمام مالیاتی کمپنیوں اور اداروں کے لیے اینٹی منی لانڈرنگ اوردہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے حوالے سے تمام احکامات اور شرائط کو ان ضوابط میں شامل کر دیا گیا ہے۔
ای سی پی کی جانب سے جاری کردہ ان ضوابط کے ذریعے تطہیر زر اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام سے متعلق ایس ای سی پی کے انضباطی نظام کو مزید مستحکم بنا دیا گیا ہے۔
تطہیر زر اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام کے ضوابط کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن اوران ضوابط کا مسودہ ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر بھی جاری کردیا گیا تھا بعدازاں مشاورت کے دوران موصول ہونے والی آرا و تجاویز کی روشنی میں جاری کردہ ضوابط کو حتمی شکل دی گئی۔
اینٹی منی لانڈرنگ کی پہلے سے موجود قانون کے مقابلے میں نئے نظام کو مزید مستحکم اور بہتر بنانے کے لیے ان ریگولیشنز میں بہت سی ترامیم اور نئی شرائط متعارف کروائی گئیں ہیں جن میں ہائی رسک والے عوامل پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور تطہیر زر اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام کے لیے رسک بیس نظام وضح کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں صارفین کے لیے مطلوبہ احتیاط کا سہل طریقہ کار بھی فراہم کیا گیا ہے تاکہ چھوٹے سرمایہ کار قدرے آسانی کے ساتھ مالیاتی اداروں کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکیں گے جبکہ مالیاتی ادارے اپنی توجہ ہائی رسک صارفین پر دے سکیں گے۔
ایس ای سی پی کے مطابق کم رسک والے صارفین میں پنشن فنڈ کی اسکیموں، محدود مالی خدمات کی مصنوعات اور بیمہ کے وہ صارفین شامل ہیں جن کی سالانہ سرمایہ کاری کی حد ایک لاکھ روپے یا ڈھائی لاکھ روپے تک ہے۔
دوسری جانب ہائی رسک صارفین میں سیاسی افراد، قانونی افراد اور قانونی طور پر پیچیدہ ملکیت والے کاروباری ڈھانچے کے حامل اور غیر منافع بخش ادارے شامل ہیں۔
جرائم پیشہ افراد، کمپنیوں، شراکت دار، ٹرسٹ اور دیگر پیچیدہ ملکیت کے طریقہ کار کے ذریعے اپنی شناخت چھپانے کے سدباب کویقینی بنانے کے لیے مالیاتی اداروں کو سخت ہدایت کی گئی ہے کہ مالیاتی خدمات کی فراہمی سے پہلے ایسے تمام قانونی انتظامی ڈھانچوں کی حقیقی ملکیت کی نشان دہی کریں۔
ضوابط میں مزید کہا گیا ہے کہ مالیاتی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے لیے اب لازم ہے کہ وہ اپنے طور پر بھی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں و مالی معاونت کے خدشات کے حوالے سے صارفین کا جائزہ اور جانچ پڑتال کریں۔
ایس ای پی کی جانب سے پاکستان میں قائم مالیاتی اداروں کے بیرون ملک یا غیر ملکی اداروں کے ساتھ تعلق اور معلومات کی فراہمی، تطہیر زر اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے حوالے سے اداروں کے اندرونی کنٹرول، سرمایہ کاروں کی جانچ پڑتال اور اداروں کی غیر ملکی شاخوں یا غیر ملکی اداروں کی پاکستان میں شاخوں کے حوالے سے بھی شرائط کو ضوابط کا حصہ بنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سمیت تمام عالمی اداروں کے تعاون کو مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔
پیغام کا اختتام/