مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جنوری 1979ء کے آغاز میں سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمسی کلارک، پرنسٹن یونیورسٹی کے لکچرار، رچرڈ فالک اور ڈان لوئس امریکی مذہبی تنظیم کے نمائندے، جو ویتنام جنگ مخالف تحریک کے تین رہنما تھے، ایران کی صورتحال کا قریب سے جائزہ لینے کیلئے تہران کا سفر کیا۔ تہران سے واپسی پر فرانس کے نوفل لوشاتو میں چھ بہمن کو امام خمینی سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس گفتگو کا خلاصہ، قارئین کے پیش خدمت ہے:
سؤال [فالک]: ایران میں رونما ہونے والا انقلاب کے متعلق کچھ بھی متصور نہیں تھا، اس انقلاب کے نتیجے میں صدیوں پر محیط جدوجہد کے بعد سیاست اور مذہب کے درمیان حسین امتزاج وجود میں آگیا ہے۔ آیت اللَّه کی نظر میں دیگر ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کس طرح خارجہ پالیسی کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
نیز ظلم و جور کےخلاف مکتب تشیع کے کردار نے لوگوں کے دلوں میں امیدوں کے چراغ کو روشن کیا ہے لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد شیعوں کا طرز عمل کیسا ہوگا؟
جواب [امام]: جس طرح صدر اسلام سے آج تک تمام ادوار میں، مکتب تشیع، حق کے دفاع میں پورے استقامت کے ساتھ ہمیشہ پیش پیش رہا ہے اور مکتب تشیع کے پیروکاروں نے کبھی کسی پر ظلم سے کام نہیں لیا۔ اگر اسلامی قوانین پرمشتمل حکومت کی بھاگ دوڑ شیعوں کے ہاتھ میں آجائے تو کوئی بھی انسان، مسلک کی بنا پر آزادی سے محروم نہیں ہوگا، مذہب تشیع کی روسے معاشرے کے تمام افراد، آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ، مستقل بھی ہیں۔
شیعہ نظریات پرمشتمل حکومت کے ساتھ احترام سے پیش آنے والی تمام حکومتوں اور اقوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہوئے انکی عوام کے ساتھ ان کی حکومتوں کے رویئے سے بہتر، برتاو کیا جائےگا۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہےکہ جب بھی اسلام نے کسی دیار غیر میں فتح کا پرچم لہرایا ہے تو وہاں کے لوگوں نے اپنی سابق حکومتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، بڑھ چڑھ کر دین اسلام کا استقبال کیا ہے، جیسے ایرانیوں نے خندہ پیشانی سے دین اسلام قبول کیا۔
اسلامی احکام کی بنیاد، عدالت پر مبنی ہے اسی لئے اسلام میں حکمرانوں کی سطح زندگی، سماج کے سب سے نچھلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ہماہنگ نظر آتی ہے، ہمارے مذہب کے امام، امیرالمومنین علی [ع] جس کی حکومت کا دائرہ وسیع تھا، کی طرز زندگی، معاشرے کے تمام غریب لوگوں سے کم تھی اور انہوں نے سماج میں عدالت کو تمام لوگوں سے بالاتر سمجھتے ہوئے نافذ کیا تھا اور کسی بھی عدالت میں اگر ان کےخلاف کوئی مقدمہ دائر ہوتا تو وہ عدالت کے سامنے حاضر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہےکہ مذہب تشیع، مقاومت کے ساتھ ساتھ، عدالت کا پیکر بھی ہے اور عدالت کا مطلب یہ ہےکہ "نہ ظلم کرو اور نہ ہی ظلم سہو"۔ شیعہ طرز حکومت کو ہمارے امام نے ان دو جملوں میں سمیٹ کر ہیش کیا ہے۔
کلی طور پر شیعیت اور اسلام کا جامع پروگرام یہی ہے، کیونکہ مذہب تشیع کے عقائد، قرآن سے ماخوذ ہے۔
سوال: ایران میں موجودہ تحریک کے حوالے سے جو تشویش پائی جاتی ہے وہ بائیں بازو کے غیر مذہبی افراد کے ساتھ رواداری سے پیش نہ آنے کا مسئلہ ہے، ہمیں اس بات کا علم ہوا ہےکہ ایران میں طلباء اور دوسرے لوگوں کے درمیان ایسے لوگ زندگی بسر کرتے ہیں جن کےلئے اسلام اور اسلامی جمہوریہ میں زندگی گزارنا مشکل امر ہے، وہ اس لحاظ سے خائف ہیں، ان خدشات کے بارے میں کس طرح کی ضمانت موجود ہے؟
جواب: دوسرے منحرف مکاتب کی جانب ان لوگوں کے رجحانات کی بنیادی وجہ، دین اسلام سے ناواقفیت ہے اسی لئے وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ اسلام سرمایہ دار اور بر سر اقتدار لوگوں کا حامی ہے! اگر انہیں یہ معلوم ہوجائے کہ اسلام ایک معتدل نظرئے کا حامل ہے جو تمام مسائل کو عدالت کے محور پر حل کرنا چاہتا ہے تو انہیں کسی قسم کا کوئی خدشہ نہیں ہوگا۔
اس کے باوجود، ہم نے نہ تو انہیں اپنے عقیدے کے اظہار سے روکا ہے اور نہ ہی روکیں گے تاہم ان کیجانب سے بغاوت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ملت ایران کو منحرف کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر قوم کو اس بات کا حق ہےکہ قومی اور مذہبی مفادات کے تحفظ کےلئے اقدامات کریں۔ اگر وہ بغاوت اور خلاف ورزی پر نہیں اترتے تو ہم بھی ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں گے۔
سؤال: دین اسلام، ثقافتی اور بنیادی اقدار پر بہت زور دیتا ہے؛ لیکن پہلوی دور اقتدار میں ثقافتی سامراجیت کی شدت کی وجہ سے مغربی اقدار کو فروغ دیا گیا ہے؛ آیت اللہ، ان سماجی اور ثقافتی خرابیوں کی اصلاح کےلئے کس طرح کا لائحہ عمل اپنائیں گے؟
جواب: یہ وہ مسائل ہیں جس کی روسے ہم نے شاہ کی مخالفت کی ہے، آپ لوگ مسائل کو فقط ایک پہلو سے دیکھتے ہیں جبکہ انکے بہت سے دوسرے بھی پہلو ہیں، پچاس برس کے دوران، انہوں نے نہ صرف ہماری ثقافت کو پیچھے ڈھکیل دیا ہے بلکہ ہمارے لوگوں کو بھی پسماندہ کیا ہے، ہماری معیشت کو برباد کردیا ہے اور انکے اقتدار کے دوران، ایران کے قومی خزانوں کو لوٹا گیا ہے اور ایران کو امریکی بیس میں تبدیل کردیا ہے اور ایرانی افواج کی تربیت فاسد اصولوں پر کی گئی ہے۔ لہذا بڑے پیمانے پر اصلاحات کےلئے ایک طویل پروگرام کی ضرورت ہے؛ تاہم اس نکتے کے پیش نظر کہ پوری قوم نے ایک ساتھ ملکر قیام کیا ہے اور سب کا ایک ہی نعرہ ہے: "استقلال آزادی، جمہوری اسلامی" ہم توقع کرتے ہیں کہ معاشرے کے تمام طبقات کے تعاون سے اس ثقافت کو سامراجی چنگل سے نجات دیتے ہوئے اسے ایک مستقل اسلامی ثقافت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ان شاءاللَّه ہم اپنے آپ کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کراتے ہوئے تمام میدانوں میں استقلال کا پرچم لہرائیں گے۔
فالک: بہت بہت شکریہ؛ ہماری تین امیدیں اور آرزویں ہیں:
۱/۔ اقتدار کی منتقلی، بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے، مسالمت آمیز طریقے سے، بہت جلد ممکن ہوسکے۔
۲/۔ عدالت اور انصاف کے تمام تر وعدے لوگوں کے حق میں تحقق پذیر ہوجائیں۔
۳/۔ ایران اور امریکی عوام ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اپناتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئیں۔ اس ضمن میں ہر طرح سے ہم آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ تینوں آرزو، عملی طور پر محقق ہوسکے۔
امام خمینی: ہم بھی یہی توقع کرتے ہیں، پہلی آرزو کی چابی اغیار کے ہاتھوں میں ہےکہ انہیں چاہئے کہ ایران کو دھمکی دینے سے باز رہیں؛ ان شاءاللہ اسلام کے سائے میں ایرانی قوم بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے اقتدار کو مسالمت آمیز طریقے سے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے سماج میں عدالت اور انصاف کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کرےگی۔
اگر عوام پر حکومت کرنے والی طاقتیں اپنے آپ کو سیاست سے الگ کردیں یا پھر اپنی اصلاح کریں تو دنیا کی مختلف اقوام کے مابین، مفاہمت اختیار کرنے میں بہت آسانی ہوگی تاہم فاسد حکمرانوں کے بر سر اقتدار رہنے کی صورت میں، مختلف اقوام کے درمیان مفاہمت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
حوالہ: صحیفه امام؛ ج۵، ص۵۳۲
پیغام کا اختتام/