مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے پیر کے روز العالم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی کوشش ہے کہ وہ اس مرحلے پر نہ پہنچے کہ تیل کے بائیکاٹ کے مقابلے میں کوئی عملی اقدام انجام دے کہا کہ عالمی برادری، امریکہ کے اتحادی ممالک خاص طور سے یورپی ممالک، روس، چین اور ہندوستان بھی نہیں چاہتے کہ بائیکاٹ کے مقابلے میں ایران کی جانب سے کوئی عملی اقدام عمل میں آئے اسی لئے یہ تمام ممالک، ایران سے مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ ایران کے مطالبات پورے کئے جا سکیں۔
نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں مغرب کے مجوزہ پیکیج کے بارے میں کہا کہ اس پیکج میں تیل، گیس، بیمہ، بینکنگ امور اور وہ تمام مطالبات شامل ہیں جو ایٹمی معاہدے کے دائرے میں ایران کی جانب سے کئے گئے ہیں اور تہران اس بات کا منتظر ہے کہ ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عملی طریقے پیش کئے جائیں اور اس سلسلے میں مذاکرات کا عمل بھی جاری ہے۔
انھوں نے ایران کے بارے میں سعودی عرب کے رویّے سے متعلق بھی کہا کہ سعودی عرب کو ایران کی پالیسیوں اور علاقے کے بارے میں اپنے رویے اور سوچ پر نظرثانی کرنا ہو گی۔دریں اثنا واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر خالد بن سلمان نے عرب نیوز کی ویب سائٹ پر نشر ہونے والی اپنی ایک یادداشت میں امریکی صدر ٹرمپ سے علاقے میں ایران کی پالیسیوں کا مقابلہ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے بیان میں علاقے میں سعودی عرب کے کردار کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے غلط اندازوں کے نتیجے میں علاقے کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یمن، بحرین، لبنان، قطر، شام اور عراق میں پیش آنے والے تمام مسائل و مشکلات، سعودی عرب کی مسلسل غلطیوں اور ان کی تکرار کا ہی نتیجہ ہیں۔اسلامی جمہوریہ ایران علاقے میںامریکی، صیہونی اور سعودی اقدامات اور ان کی سازشوں کے مقابلے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔
ایران، عراق اور شام میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے مقابلے میں ان ممالک کی باضابطہ طور درخواست پر ان ممالک کے ساتھ فوجی مشاورت کی سطح پر تعاون کر رہا ہے اور یہ ایسا اقدام ہے جو امریکی اور سعودی حکام کی نظر میں ہرگز خوش آئند واقع نہیں ہو سکتا۔
واضح رہے کہ علاقے میں توازن مکمل طور پر غاصب صیہونی حکومت کے حق میں تبدیل کرنے کی غرض سے شام میں دو ہزار گیارہ اور عراق میں دو ہزار چودہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی جارحیت اور جارحانہ حملوں سے بحران شروع ہوا تھا۔جبکہ عراق اور شام کی افواج نے اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی مشیروں کی مدد و تعاون سے دہشت گرد گروہوں کو مکمل شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔