مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ شام کے بارے میں ماسکو کے ساتھ واشنگٹن کا تعاون ایرانی فوج کے انخلا سے مشروط ہے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤ روف نے جان بولٹن کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، امریکہ سمیت، شام میں غیر قانونی طور پر موجود تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔
سرگئی لاؤروف نے یہ بات زور دے کر کہی کہ شام کی قانونی حکومت کی اجازت اور دعوت کے بغیر اس کی سرزمین پر موجود تمام غیر ملکی فوجوں کو فوری طور پر نکل جانا چاہیے۔ روسی وزیر خارجہ نے شام کی قانونی حکومت کی دعوت بغیر داخل ہونے والی تمام غیر ملکی فوجوں کے قیام کو عالمی قوانین اور ضابطوں کے منافی قرار دیا۔
دوسری جانب روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا ہے کہ شام میں ایران، روس اور ترکی کا تعمیری کردار امریکہ کی اصل مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو پریشانی اس بات پر ہے کہ دیگر ممالک شام میں سودمند اور تعمیری کردار کیوں ادا کر رہے ہیں۔ روسی صدر کے ترجمان دی متری پسکوف نے بھی امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ روس بقول ان کے شام میں پھنس کر رہ گیا ہے۔
دی متری پسکوف نے کہا کہ روس نے شام کو داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے بچانے کے لیے فعال کردار ادا کیا ہے اور بحران کو سفارتی اور سیاسی بنیادوں پر حل کا عمل شروع کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر کے مشیر جان بولٹن نے اپنے ایک انٹرویو میں دعوی کیا تھا کہ روس شام میں پھنس کر رہ گیا ہے اور کوشش کررہا ہے کہ شام کی تعمیر نو کے اخراجات دوسرے ممالک برداشت کریں اور یہ واشنگٹن کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ شام سے ایرانی فوج کے انخلا کے لیے دباؤ میں اضافہ کرے۔
جان بولٹن کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب عراق اور شام میں داعش کی حتمی شکست میں اسلامی جمہوریہ ایران نے بروقت اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف فوجی مشاورت کے لیے دمشق حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران سے باضابطہ درخواست کی تھی جبکہ شام کی قانونی حکومت امریکی فوج کی موجودگی کو اپنے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے اور اس کے فوری اور غیر مشروط انخلا کی خواہاں ہے۔