مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ میں مستقل امریکی مندوب نکی ہیلی نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ستمبر کے آخر میں ایران کے مسئلے پر سلامتی کونسل کے تشکیل پانے والے اجلاس کی خود صدارت کریں گے۔
واضح رہے کہ ا مریکا اس وقت سلامتی کونسل کا مرحلہ وار صدر ہےنکی ہیلی نے یہ مضحکہ خیز دعوی بھی کیا کہ سلامتی کونسل کا یہ اجلاس ایران کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لئے جانے کی غرض سے تشکیل دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں مستقل امریکی مندوب نکی ہیلی کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں روس کے نائب مستقل مندوب دیمتری پولانسکی نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس تشکیل دیئے جانے کے خلاف ہے۔
انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اس قسم کا کوئی اجلاس اگر تشکیل پاتا ہے تو اس میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کا جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے۔بعض مغربی سفارتکاروں کے حوالے سے رویٹرز نیوز ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ ایران کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ممکنہ طور پر چھبیس ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مختلف ملکوں کے سربراہوں کی موجودگی کے موقع پر منعقد ہو گا۔
امریکہ نے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد سے ایران پر دباؤ ڈالنے کے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئےہیں-امریکی صدر ٹرمپ نے آٹھ مئی کو ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے اور جوہری پابندیاں بحال کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
جبکہ اس اقدام پر امریکی صدر ٹرمپ کو عالمی سطح پر وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالفت اور تنقید کرنے والے ملکوں میں ایٹمی معاہدے میں شریک دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ایٹمی معاہدے میں شامل دیگر ملکوں منجملہ روس، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین نے امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد اعلان کیا کہ وہ ایٹمی معاہدے کی پابندی اور اس کی حمایت جاری رکھیں گے۔