مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ایک تحریری بیان میں سعودی اتحاد اور یمنی دھڑوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں مذاکرات شروع کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔
امریکی وزیر جنگ جیمز میٹس نے جنگ یمن کے خاتمے کی ضمنی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ تیس روز کے اندر اندر یمن میں امن مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔
دوسری جانب جنگ مخالفین نیز برطانوی پارلیمنٹ کے بعض ارکان نے یمن میں سعودی حکومت کے جنگی جرائم پر لندن کی خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے ریاض کو اسلحے کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ لوئیڈ رسل موئیل نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت برطانیہ جنگ یمن میں ہوائی جہاز فراہم کر رہی ہے، پائیلٹوں کو تربیت دے رہی ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے سعودیوں کی مدد کر رہی ہے کہ بم کہاں گرائے جائیں۔
رسل نے مزید کہا کہ حکومت برطانیہ یمن کے خلاف سعودی جارحیت اور جنگ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
جنگ مخالفین کی سرکردہ رہنما لینڈ سی گریمین نے بھی برطانیہ کو سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے آغاز سے اب تک لندن نے چھے سو ملین ڈالر کے ہتھیار سعودی عرب کو فروخت کیے ہیں اور اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی اور انٹیلی جینس تعاون بھی کیا ہے۔
انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ سعودی عرب کے ساتھ فوجی تعاون اور اسلحے کی فراہمی کا سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔
اس سے پہلے اسکائی نیوز نے اپنے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ سعودی عرب اور برطانیہ کے درمیان اسحلہ کی تجارت اس سے کہیں زیادہ ہے کہ جس کا سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت برطانیہ نے اعلان کردہ تعداد سے دوگنا زیادہ تعداد میں سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے لائسنس جاری کیے ہیں۔
سعودی عرب نے مارچ دو ہزار پندرہ میں امریکہ اور بعض یورپی ملکوں کی شہ ملنے کے بعد یمن کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا تھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
پیغام کا اختتام/