مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، فرانس کے دارالحکومت پیرس میں یہ مظاہرہ ایسے وقت میں کیا گیا کہ فرانس میں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مسلسل گیارہویں ہفتے بھی یلو جیکٹ مظاہرین سڑکوں پر نکلے جبکہ پولیس سے جھڑپوں اور املاک کو نقصان پہنچانے پر دو سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ۔
یہ مظاہرہ ریڈ مفلر سے موسوم فرانسیسی صدر امانوئل میکرون کے حامیوں نے دارالحکومت پیرس میں یلو جیکٹ مظاہرین اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف کیا۔یہ مظاہرہ فرانسیسی ایوان نمائندگان میں صدر امانوئل میکرون کی پارٹی اراکین کی اپیل پر کیا گیا تاکہ ریفرینڈم، ایوان نمائندگان کی سرگرمیوں کی معطلی اور صدر امانوئل میکرون کے استعفے کے مطالبے کے مقابلے میں مزاحمت کی جا سکے۔پیرس کی انتظامیہ نے مظاہرین کی تعداد تقریبا دس ہزار بتائی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مظاہرے کے دوران فرانسیسی صدر میکرون کے حامیوں اور مخالفین میں بدکلامی بھی ہوئی اور دونوں فریقوں کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ریڈ مفلر مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ سنیچر کے روز گیارہ ہفتوں سے جاری ایسے احتجاج کے خلاف خلاف ہیں کہ جس کے نتیجے میں راستے بند اور لوگوں کو خدمات سے محروم ہونا پڑتا ہے۔لال مفلر مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں فرانس اور یورپی یونین کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔
میکرون کے حامیوں کی جانب سے فرانسیسی پولیس کی ایسی حالت میں حمایت کی جا رہی ہے کہ فرانس کی پولیس یلوجیکٹ مظاہرین پر بلاسبب تشدد و بدامنی پھیلانے کا الزام لگا رہی ہے۔اتوار کے روز پیرس میں یلو جیکٹ مظاہرین کا احتجاج پرامن رہا البتہ بعض شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔واضح رہے کہ سترہ نومبر سے صدر میکرون کی پالیسیوں پرعوام کا احتجاج کیا جا رہا ہے اور ان مظاہروں پر قابو پانے کے لیے فرانسیسی صدر کی جانب سے پندرہ جنوری سے دو ماہ پر مشتمل ملک گیر بحث کرانے کے اعلان کے باوجود احتجاج کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور لوگ صدر میکرون کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔فرانس میں حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف احتجاج اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک تقریباً دس افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
فرانس میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج اب سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے جسے روکنے میں حکومت ناکام ہو گئی ہے۔
پیغام کا اختتام/