مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق "محمد جواد ظریف" نے منگل کے روز گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم نے حالیہ مہینوں کے دوران، 1+4 ممالک یعنی چین، روس، تین یورپی ممالک اور یورپی یونین سے مذاکرات کیے ہیں اور جوہری وعدوں میں کمی لانے کا اقدام، دو سال قبل اور جوہری معاہدے کی شق نمبر 36 کے مطابق، آغاز ہوچکا ہے اور ہم نے بدستور جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی اور جوہری وعدوں میں کمی لانے سے متعلق ان فریقین سے گفتگو کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی پارلیمنٹ میں پابندیوں کی منسوخی سے متعلق اسٹریٹجک اقدام اٹھانے کا قانون بھی اس حوالے سے ہے؛ ہم نے بار ہا کہا ہے کہ اگر دیگر فریقین اپنے وعدوں پر پورا اتریں تو ہم بھی بھر پور طریقے سے اپنے جوہری وعدوں کو نبھائیں گے۔
ظریف نے کہا کہ یورپی فریقین نے دعوی کرنے کے باوجود اپنے جوہری وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے؛ جوہری معاہدے کے معاملے میں صرف کسی کاغذ پر دستخط کافی نہیں ہے؛ تمام یورپی کمپنیوں نے ایران سے باہر نکلا کیونکہ انہوں نے ان کمپنیوں کی حمایت نہیں کی؛ انہوں نے وعدہ خلافی کی لہذا اپنے وعدوں پر عمل کرنے سے متعلق یورپی ممالک کا کھیل، نا قابل قبول ہے اور انہوں نے بلاشبہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپی فریقین نے جوہری معاہدے کے علاوہ 11 اور وعدے دیے جن پر بھی عمل نہیں کیا اور انٹیکیس مالیاتی نظام ان 11 وعدوں پر عمل درآمد کا پیش خیمہ تھا جس کا نفاذ بھی کامیاب نہیں ہوگیا۔
ظریف نے کہا کہ لہذا فریقین کی جگہ کو نہ بدلیں؛ امریکہ اور یورپ نے بین الاقوامی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے تو اگر ان کو جوہری معاہدے میں واپسی کا ارادہ ہے انہیں ٹرمپ کے رویے کا خاتمہ دینا ہوگا اور اگر ان کا دعوی ہے کہ ٹرمپ کے رویے کو شکست کا سامنا ہوا ہے تو اس رویے پر عمل درآمد کو روک دیں؛ اسی صورت میں ہم بھی پچھلے کی صورتحال پر واپس آئیں گے۔