مقدس دفاع نیوز ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نجران کے عیسائيوں سے مباہلہ کرنے اور اسلام کے تحفظ اور بالادستی کے لئے اپنے ساتھ حضرت علی (ع)، حضرت فاطمہ(س)، حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین علیہ السلام کو لیا اور اس مباہلہ میں پیغمبر اسلام (ص) کو فتح نصیب ہوئی۔
مباہلہ کیا ہے اور مسلمان عید مباہلہ کیوں مناتے ہیں؟
مباہلہ کا مطلب ہے ایک دوسرے پر نفرین کرنا تاکہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہو اور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے۔ حق اور باطل میں تشخیص کی جائے۔ مباہلہ کسی خاص فرقہ کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی عید ہے۔
عید مباہلہ کا دن اسلام کی فتح کا دن ہے اسی لئے مسلمان اس دن عید مناتے ہیں اور تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔
چوبیس ذی الحجہ ہر سال ہمیں ایک عظیم واقعے کی یاد دلاتا ہے۔ اس دن مسلمانوں کو عیسائیوں پر فتح نصیب ہوئی۔ مباہلہ کا واقعہ 9 ہجری کو پیش آیا۔ نجران کا علاقہ یمن کے شمالی پہاڑی سلسلے میں واقعہ ہے جہاں عیسائیوں کی بڑی تعداد رہتی تھی۔ انہوں نے وہاں گرجا گھر بھی بنایا ہوا تھا جہاں وہ عبادت کیا کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے مکہ کو فتح کیا اور اسلام تیزی سے پھیلا تو مختلف گروہ اسلام میں داخل ہوئے۔ دین کی دعوت کا ایک پیغام نجران کے عیسائیوں تک بھی پہنچا اُن میں سے کچھ لوگ مشتعل ہو گئے تو نجران کے بزرگ پادریوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ہم بغیر لڑے حل کریں گے۔ طویل مذاکرات کے بعد یہ طے پایا کہ 14 لوگوں پر مشتمل ایک قافلہ مدینہ روانہ کیا جائے۔ جب قافلہ مدینہ پہنچا تو وہاں کے لوگ نجرانیوں کے شاندار لباس سے بہت متاثر ہوئے۔
جب حضرت محمد صلی علی علیہ والہ وسلم نے دیکھا تو اپنا منہ موڑ لیا۔ وہ لوگ مسجد نبوی سے باہر نکل آئے۔ حضرت علی علیہ السلام نے کہا کہ آپ لوگوں کا لباس آپ کی ذہنی برتری کی عکاسی کرتا ہے اس لئے آپ اپنا لباس تبدیل کریں پھر حضور (ص) آپ سے ملیں گے۔ جب انہوں نے اپنا لباس تبدیل کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُن سے ملاقات کی۔ مختلف موضوعات پر بات کرنے کے بعد بھی عیسائی اسلام قبول کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔ اسی موقع پر آیت مباہلہ نازل ہو ئی۔
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔(سورہ آل عمران، 61)
عیسائی اس بات پر راضی ہو گئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت سلیمان فارسی کو تیاری کرنے کے لئے کہا۔ حضرت سلیمان نے لال قالین بچھایا۔ آج بھی اگر عیسائی کسی کو عزت دینا چاہیں تو وہ لال قالین بچھاتے ہیں جو مباہلہ کے دن کے اس عمل کی یاد دلاتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے ساتھ حضرت علی(ع) ، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام کو لیا اور اپنے اس وفد کی قیادت کرتے ہوئے طے شدہ جگہ پر پہنچ گئے۔
سعد بن ابی وقاص نے روایت کی کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا،
حضرت علی، حضرت فاطمہ،حضرت حسن اور حضرت حسین علیہ السلام میرے اہل بیت (ع) ہیں۔ (صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 287)
عیسائیوں کے اس وفد نے جب کائنات کی ان 5 عظیم ہستیوں کو دیکھا تو اُن میں سے بزرگ پادری ابو حریصہ نے کہا کہ میں ان ہستیوں کے روشن چہرے دیکھ رہا ہوں آگر یہ اللہ سے دعا کریں کہ یہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو پہاڑ ہٹ جائیں گے۔ ان سے مباہلہ مت کرو ورنہ تم برباد ہو جاؤ گے۔ اس مباہلہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں نے کہا کہ ہم آپ سے دوستی کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا کہ تم ان کے ساتھ معاہدہ کر لو کہ یہ ہمیں جزیہ دیں گےاور پھر یہ ہماری نگرانی میں امن وسلامتی میں رہیں گے۔ جزیہ ٹیکس کو کہتے ہیں جو کسی ریاست میں رعایا حکومت کو دیتی ہے۔
یہ دن اسلام کی فتح کا دن ہے اسی لئے مسلمان اس دن عید مناتے ہیں اور تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔
حضرت امام دضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ اہل بیت علیھم السلام کی ایسی خصوصیت اور اعزاز ہے کہ اس پر کوئی سبقت نہیں لے سکتا اور یہ ایسی منزلت ہے کہ جہاں تک کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا اور ایسا شرف ہے جو آج سے پہلے کوئی حاصل نہیں کر سکا۔