مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی مسلح افواج کے سینئر ترجمان جنرل ابوالفضل شکارچی نے جوبایڈن کے ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے دعووں پر اپنا رد عمل دیتے کہا: امریکہ کا مفلوک الحال صدر اور ناجائز صہیونی ریاست کے بے بس وزیر اعظم کی جانب سے طاقت کے استعمال کی تعبیر کو ہم نفسیاتی جنگ اور ان کی حسب سابق توہم پرستی کے کھاتے ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم ان کو یاددہانی کر رہے ہیں کہ گذشتہ واقعات کو ایک مرتبہ دھرا لیں۔ تہران میں امریکی جاسوسی کے اڈے ﴿امریکی سفارتخانے﴾ پر قبضہ، طبس کے دشت میں امریکی افواج میں گڑجانا، آٹھ سالہ تحمیلی جنگ میں امریکہ کی واضح شکست، امریکی قابض افواج کا افغانستان سے فرار، امریکی اڈے عین الاسد کی تباہی، خلیج فارس میں امریکہ کے پیش رفتہ ترین ڈرون کا شکار، عراق و شام میں داعشی حملے کے امریکی منصوبے کی ذلت امیز شکست، انصار اللہ یمن کے مقابلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خفت امیز شکست، حزب اللہ لبنان کے ساتھ ۳۳ روزہ جنگ میں شکست، مقبوضہ فلسطین میں حماس کے ساتھ ۲۲ روزہ جنگ میں شکست، اربیل میں غاصب اور ظالم صہیونی حکومت کے جاسوسی کے مرکز کی تباہی، جولان کی بلندیوں پر صہیونی فوجی اڈوں کی تباہی، خلیج فارس میں امریکی افواج کی شلواریں گیلی ہونا، خطے میں معمول کے گشت حوالے سے امریکی اور صہیونی افواج میں پایا جانے والا گہرا خوف اور دہشت چونکہ وہ بشریت کے خلاف اپنے مظالم اور بربریت سے واقف ہیں اور اس کے علاوہ مزید واقعات۔
جنرل شکارچی نے مزید کہاکہ طاقت کے استعمال کی تعیبر استعمال کرنے کی ممنکہ طور پر کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، من جملہ نفسیاتی جنگ، توہم پرستی اور خواب آلودگی، دودھ دینے والی بھینس کا مزید دودھ دھونا، مزید مفت پیٹرول کی لوٹ مار، امریکی زوال کے عمل کو سست کرنا، امریکہ کے کھوکھلے اور ٹوٹے ہوئے دبدبے کی دوبارہ بحالی، فلسطین اور بیت المقدس پر قابض غاصب ریاست کی فروپاشی کے عمل کی رفتار کو کم کرنا، خطے میں مزید ہتیار بیچ کر امریکہ کی بیمار معیشت کو نجات دینا، خطے میں اپنے پالتو کتے غاصب اور بچوں کی قاتل صہیونی ریاست کو تسلی دینا اور اس کی ہمت باندھنا اور دھوکہ دھی کے لئے ہالیووڈ سینما کے پُھکنا دار طاقت کے استعمال کا کچے دھاگے کی مانند اور بغیر رنگ والی مہندی کی منظر آرائی ہو۔
ایرانی مسلح افواج کے سینئر ترجمان نے کہا: وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی تعبیر کام میں لانے کی قیمت بھی چکانا پڑے گی، لہذا بہتر ہے کہ خطے اور دنیا کے حالات کا بغور جائزہ لیں، ایک بار ماضی کو دھرا لیں تا کہ مستقبل کا صحیح سے تجزیہ کرسکیں۔