مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب میں دو ماہ سے زیر حراست سعودی ارب پتی شہزادہ الولید بن طلال حکام کے ساتھ رہائی کے لیے رقم کی ادائیگی کے بدلے میں رہائی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
سعودی عرب میں نئی انسداد بدعنوانی کمیٹی نے 11 شہزادوں، چار موجودہ اور ‘درجنوں’ سابق وزرا کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں معروف سعودی کاروباری شخصیت شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل تھے۔ یہ گرفتاریاں اس انسداد بدعنوانی کمیٹی کی تشکیل کے چند گھنٹوں بعد کی گئیں جس کے سربراہ ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔
اس موقعے پر سعودی عرب کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ملک میں حالیہ عشروں کے دوران ایک کھرب ڈالر کی خردبرد ہوئی ہے۔ گرفتار افراد کو دارالحکومت ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں رکھا گیا۔ ’گرفتار مذہبی رہنما پر فرد جرم عائد نہیں کی جا رہی‘
یہ گرفتاریاں گذشتہ برسوں میں سعودی عرب سے آنے والی اہم ترین خبروں میں سے ایک ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب میں اس پر کھلے عام بہت کم بات ہو رہی ہے۔
شہزادہ الولید کنگڈم ہولڈنگ کے چیئرمین اور مالک ہیں اور سعودی عرب کے معروف ترین کاروباری شخصیت ہیں۔سعودی اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ ’الولید نے رقم بتائی لیکن جتنی رقم ہمیں ان سے چاہیے وہ کہیں زیادہ ہے اس لیے آج تک اٹارنی جنرل نے اس سمجھوتے کی منظوری نہیں دی ہے۔‘
ایک اور اہلکار نے بتایا کہ شہزادہ الولید نے سعودی حکومت کو ’عطیہ‘ دینے کی پیشکش کی ہے۔ عطیہ دینے سے وہ اس اعتراف سے بچ جائیں گے کہ انھوں نے بدعنوانی کی۔ ہفتے کے روز تعمیراتی کمپنی سعودی بن لادن گروپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ کمپنی کے کچھ حصص ریاست کے نام ٹرانسفر کریں گے۔ یہ کمپنی ایسا سمجھوتے کے تحت کر رہی ہے۔ سعودی بن لادن کے چیئرمین بکر بن لادن اور ان کے خاندان کے کئی افراد حراست میں ہیں۔
شہزادہ الولید کون؟ شہزادہ الولید کو حراست میں لیے جانے کی خبر آنے کے بعد کنگڈم ہولڈنگ نامی انوسٹمنٹ کمپنی کے حصص کی قدر میں 9.9 اعشاریہ فیصد کمی ہوئی۔ کنگڈم ہولڈنگ کے مالک بھی شہزادہ الولید ہیں۔ یہ کمپنی سعودی عرب کی اہم ترین انویسٹمنٹ کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ٹوئٹر اور ایپل کے علاوہ سٹی گروپ بینک، فور سیزنس ہوٹلوں کے سلسلے اور روپرٹ مرڈوک کی نیوز کارپوریشن میں بھی اس کمپنی نے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
شہزادہ الولید بن طلال اپنی کمپنیوں میں خواتین کو نوکریاں دینے کی وجہ سے بھی مشہور رہے ہیں۔ ان کے عملے میں دو تہائی خواتین ہیں۔ لیکن وہ اپنی سو ملین ڈالر مالیت کی ان تفریح گاہوں کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں جو انہوں نے صحرا میں بنائی ہوئی ہیں اور جہاں انہوں نے پستہ قد لوگوں کو رکھا ہوا ہے تا کہ وہ آنے والوں کو تفریح فراہم کر سکیں۔
دو سال قبل شہزادہ الولید نے ان پائلٹوں کو مہنگی گاڑیاں دینے کی پیشکش کی تھی جو پڑوسی ملک یمن پر بمباری میں حصہ لے رہے ہیں۔ چند برس قبل انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ہوٹل اور ایک پرآسائش کشتی کو خرید لیا تھا۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ سیاست میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ لیکنبعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے فیصلے پر انہوں نے ٹوئٹر پر ان سے لڑائی کی۔
شہزادہ الولید بن طلال نے ٹوئٹ کی ‘ تم نہ صرف ریپبلیکن پارٹی کے لیے تذلیل کا باعث ہو بلکہ پورے امریکہ کے لیے بھی۔ امریکہ کی صدارت کی دوڑ سے دستبردار ہو جاؤ کیونکہ تم کبھی نہیں جیت سکتے۔’
پیغام کا اختتام/