مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، شام پر حملے کی غرض سے صدر ٹرمپ کی صدارت میں ہونے والا امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کا اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا ہے اور وائٹ ہاؤس نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ٹرمپ نے شام پر حملے کے بارے میں حتمی فیصلہ ابھی نہیں کیا ہے۔وائٹ ہاؤس نے دعوی کیا ہے کہ شام کی صورتحال کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان معلومات کے تبادلے اور صلاح و مشورے کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ شام پر حملہ کب کیا جائے گا، شام پر حملہ، فوری طور پر بھی ہوسکتا ہے اور شاید اس میں کچھ وقت بھی درکار ہو۔ امریکہ کے اس دھمکی آمیز رویئے پر کڑی نکتہ چینی بھی کی جارہی ہے۔دوسری جانب برطانوی وزیراعظم کے دفتر نے بتایا ہے کہ لندن نے امریکی قیادت میں شام کے خلاف فوجی کارروائی میں حصہ لینے کی حامی بھرلی ہے۔ جس پر حزب اختلاف کے رہنما جیرمی کوربن نے کڑی نکتہ چینی کی ہے۔برطانوی حزب اختلاف کے رہنما جیرمی کوربن کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں صورتحال مزید بد تر ہوجائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ خود امریکی وزیر جنگ جیمز میٹس نے بھی کہا ہے کہ شام پر حملے کے لیے کافی شواہد موجود نہیں ہیں، اور حملے کی صورت میں حالات قابو سے باہر بھی ہوسکتے ہیں۔جرمنی کی فری ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی شام کے خلاف امریکی صدر کی دھمکیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ایف ڈی پی کی سربراہ کرسٹین لنڈر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس قسم کی دھمکیاں غیر ذمہ دارانہ اور غیر منطقی ہیں اور سلامتی کونسل پر دباؤ ڈالنے کا حربہ ہے۔درایں اثنا اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے ویسلے نبنزیا نے کہا ہے کہ شام کے خلاف جنگ سے گریز تمام ملکوں کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں کیمیائی اسلحے کے استعمال کے دعووں کی تحقیقات کے لیے عالمی معائنہ کاروں کو علاقے میں روانہ کیے جانے کی ضرورت ہے۔قابل ذکر ہے کہ شامی فوج نے غوط شرقی کو دہشت گردوں کے قبضے سے مکمل آزاد کرالیا ہے جس کے بعد امریکہ نے شام میں کیمیائی اسلحے کے استعمال کا ڈرامہ رچا کر شام کے خلاف فوجی کارروائی کی کوشش شروع کردی ہے۔