مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، امریکی جریدے فارن پالیسی کے مطابق انسانی اور شہری حقوق کی حامی تنظیموں نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ میں حقائق میں تحریف کی کوشش کی گئی ہے اور ایسے فلسطینی علاقوں کے لیے کہ جن پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے، مقبوضہ علاقے لکھنے سے گریز کیا گیا ہے جس سے اس رپورٹ کا اعتبار ختم ہو گیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے انسانی حقوق کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں بعض ملکوں کے نام شامل نہیں کیے جبکہ غرب اردن کے علاقوں کے مقبوضہ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے، اسرائیل، جولان کی بلندیاں، غرب اردن اور غزہ کی عبارت استعمال کی گئی ہے۔
دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے القدس شریف کے بارے میں امریکہ کے صدر کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ٹرمپ یا کسی بھی دوسرے شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے۔
محمود عباس نے غرب اردن کے فلسطینیوں کے نمائندہ وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حل سے پہلے کسی بھی ملک کو اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے ایک بار پھر تنظیم آزادی فلسطین کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ بیت المقدس، فلسطین کا دارالحکومت ہے اور اس کے دروازے سب کیلئے کھلے ہوئے ہیں اور تمام ادیان کے پیروکار اس میں آزادانہ عبادت کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست بنانے کا وقت آگیا ہے تاہم ہماری مشکل ناجائز صہیونی ریاست اور امریکہ کی جانب سے تل ابیب کی مکمل حمایت ہے۔
یاد رہے کہ عالمی مخالفت کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھے دسمبر کو مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے اعلان کیا تھا۔
پیغام کا اختتام/