مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک جہاد اسلامی کے ترجمان داؤد شہاب نے واپسی مارچ میں فلسطینی عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کو ایک قومی فریضہ قراردیا اور کہاکہ فلسطینیوں کے حقوق اور فلسطینی کاز کے دفاع میں فلسطینیوں کا یہ شاندار اتحاد ٹرمپ کے اقدام کے حامی علاقے اور علاقے سے باہر کی سازشی حکومتوں کے لئے ایک بڑا اور واضح پیغام ہے کہ فلسطینی قوم اپنے حقوق کے دفاع کے لئے پوری طرح پرعزم ہے۔
جہاد اسلامی فلسطین کے ترجمان نے امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کردئے جانے کو فلسطینیوں کے عقائد اور مقدسات کی توہین قراردیا اور کہا کہ امریکا اور اسرائیل کا مقصد اسلامی تشخص کو ختم اور صیہونی حکومت کو عرب اور اسلامی علاقے کے ایک حقیقی جز کے طور پر متعارف کرانا ہے۔
حماس کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ خالدمشعل نے بھی عرب اور اسلامی ملکوں سے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اس اقدام کا بھرپور مقابلہ کریں۔ خالد مشعل نے ٹی آرٹی ورلڈ ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں موجود فلسطینیوں کے حامیوں اور فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ آج کے دن وہ بیت المقدس کو اسرائیل کے سپرد کرنے کے امریکی اقدام کو کسی بھی قیمت پر تسلیم نہیں کریں گے۔
حماس کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ خالد مشعل نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ امریکا اور اسرائیل فلسطینی عوام کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کرسکتے خبردار کیا کہ استقامتی گروہوں کے دشمنوں کو اپنے دل ودماغ سے یہ بات نکال دینی چاہئے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو نابود کردیں گے یا فلسطینیوں کے وطن واپسی کے حق کو ان سے چھین لیں گے۔
دوسری جانب امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کئے جانے کے موقع پر صیہونی حکومت نے بیت المقدس کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا تھا خبروں کے مطابق اس موقع پر بیت المقدس شہر میں انتہائی غیر معمولی سیکورٹی تدابیر اپنائی گئی تھیں۔ امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے پروگرام میں ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا، داماد جراڈ کوشنر اور امریکی وزارت خارجہ کے سینیئر عہدیداروں نے شرکت کی۔ البتہ دنیا کے بہت سے ملکوں منجملہ آسٹریلیا، جرمنی، آئرلینڈ، مالٹا، پرتغال، پولینڈ، سوئیڈن، روس، مصر اور میکسکو نے امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کے پروگرام میں شرکت سے انکارکردیا تھا۔ خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرانس اور برطانیہ نے بھی اس پروگرام کا بائیکاٹ کیا تھا۔
پیغام کا اختتام/