مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، شام کی فوج اردن کے سرحدی علاقے پر دستک دے رہی ہے اور اس کے فوجیوں نے اس گزرگاہ سے دہشت گردوں کے پرچم کو سرنگوں کر دیا جو کئی برسوں سے وہاں نصب تھے۔ لہذا اسرائیل اس جگہ پر بمباری کرتا ہے اور در حقیقت یہ دہشت گردوں کی شکست سے اسرائیل کے رنج و الم کی نشاندہی ہوتی ہے۔
گزشتہ تین مہینوں کے دوران، حمیمیم علاقے میں ٹیفور فوجی چھاونی پر تیسری بار بمباری کی گئی ہے اور بار بار کے حملے اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے حملے بری طرح ناکام رہے ہیں اسی لئے وہ مسلسل حملے کرکے کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے البتہ ان حملوں سے تھوڑا بہت نقصان ہوا جو جنگ کے دوران ایک عام بات ہے۔
اسرائیل کے سابق ایئر چیف نے یہ اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران، اسرائیلی جنگی جہازوں نے شام میں 100 سے زائد حملے کئے ہیں۔ ان کے اعتراف سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کو دیئے گئے پیشرفتہ جنگی جہازوں سے اسرائیل کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے، نہ ہی شام کی حکومت کمزوری ہوئی اور نہ ہی اس کے فوجیوں کے حوصلے پست ہوئے اور اسرائیل کے ان حملوں اور دہشت گردوں کے حملوں کے درمیان شام کی فوج دہشت گردوں کے 90 فیصد کنٹرول علاقوں کو آزاد کرانے میں کامیاب رہی اور اب شامی پناہ گزین اپنے وطن واپس آ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اور وزیر دفاع لیبرمین دھمکی دے رہے ہیں کہ کسی بھی صورت میں ایران کو شام میں پیر جمانے اور شام کو اسرائیل کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں دیں گے لیکن ان کی دھمکیوں نے شام یا ایرانیوں پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا اور شام کی فوج، ایران اور حزب اللہ کی مدد سے مزید پیشرفت کرتی جا رہی ہے اور کامیابیاں حاصل کرتی رہیں۔
اگر نتن یاہو اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا سکتے اور ایران کی فوجی موجودگی کو ختم کرنے کی طاقت رکھتے تو پھر خوفزدہ ہوکر بدھ کے روز ماسکو کیوں بھاگ رہے ہیں؟ اس سال ان کا تیسرا ماسکو دورہ ہے وہ بھی ایسے حالات میں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کہے جانے والے امریکا کی انہیں حمایت حاصل ہے۔
شام پر اسرائیلی جنگی جہازوں کی بمباری کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہےاور اب یہ علاقائی ذرائع ابلاغ میں دوسرے درجے کی خبر بن گئی ہے اور اگر شام ان حملوں کا جواب نہیں دے رہا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس کے پاس ابھی کرنے کے لئے زیادہ اہم کام ہے لیکن جواب میں یہ تاخیر زیادہ دنوں تک نہیں رہنے والی ہے۔ ہمیں تو یہی لگتا ہے۔
بشکریہ
عبد الباری عطوان
رای الیوم
پیغام کا اختتام/