مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلام دشمنوں نے غیر صالح حکام کے ہاتھوں تفرقہ اندازی کی تلوار سے امت پیغمبر اسلام ؐ کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے۔
تہران، قم اور ایران کے دوسرے بہت سے شہروں میں "یا خمینی یا موت" کے نعرے پوری فضا میں گونج رہے تھے، وہائٹ ہاوس کے تیارکردہ منصوبہ کے تحت امریکہ اپنے اصلاحی پروگرام پوری دنیا خصوصا ایران میں جو مشرق وسطی کی ہنگامہ خیز صورت حال میں اس علاقے کے درمیان ایک مستحکم و پر سکون جزیرہ کی حیثیت رکھتا تھا پورے سکون و اطمینان کے ساتھ برقرار کرنا چاہتا تھا۔ اسی وجہ سے شاہ کے اصلاحی پروگرام کو ان لوگوں نے "انقلاب سفید" کا نام دیا تھا، لیکن عوامی سطح پر ۱۵ خرداد کے انقلابی اقدام نے شاہ کے تمام پروگرامز کو درہم برہم کر دیا۔ یہ ایک بڑے پیمانے پر خونین مقابلہ آرائی تھی جو ایران کی جدید تاریخ میں پہلی مرتبہ سو فیصد علمائے اسلام کی قیادت و رہبری میں شاہی نظام کو سرنگوں کرنے کےلئے ایک خالص اسلامی انقلاب کے عنوان سے رونما ہوئی تھی۔
امام خمینیؒ کے ساتھیوں کو یکے بعد دیگرے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور بظاہر تحریک کا سر کچل کر کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔ امام خمینیؒ حوالات میں صاف صاف اعلان کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور اس کی شاہی عدالتیں تمام کی تمام فاسد ہیں۔ لہذا باربار ان کیطرف سے عدالتی چارہ جوئی کے باوجود امام خمینیؒ ان کے کسی سوال کا جواب نہیں دیتے۔
امام خمینیؒ نے قید سے آزاد ہوتے ہی حکومت کیجانب سے آیت ﷲ طالقانی اور انجینئر مہدی بازرگان کی گرفتاری کا حکم صادر ہونے پر ایک احتجاجی بیان جاری کیا جس میں حکومتی کرتوت کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے خطرے اور ملک کے امور پر اس کے ممکنہ تسلط کے بارے میں لوگوں کو خبردار کیا اور اپنی دو مسلسل تقریروں میں تحریک کے جاری رکھنے سے متعلق اپنے پختہ عزم کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
"خمینی کو پھانسی پر چڑھا دیں تو بھی وہ سازش نہیں کرےگا۔ غلط فہمی میں نہ رہو؛ خمینی اگر تم سے سمجھوتا کر بھی لے تو ملت اسلام تم سے سمجھوتا نہیں کرےگی۔ غلط فہمی میں نہ رہو؛ ہم جس مورچے پر کھڑے تھے اب بھی وہیں ڈٹے ہوئے ہیں۔ جتنے بھی ماضی میں اسلام مخالف قوانین تم نے پاس کئے ہیں ہم ان سب کے مخالف ہیں۔ ہم تمہارے ہر طرح کے ظلم و جبر کے مخالف ہیں"۔
امریکہ نے ایران میں اپنے ملکی باشندوں کی جان اور اپنے منافع کی حفاظت کی خاطر قرون وسطی میں رائج کیپچولیشن کے سرکاری بل دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس بل کے رو سے امریکی فوجی و سیاسی مشیروں کو ایران کی عدالتی چارہ جوئیوں سے تحفظ حاصل ہو جاتا اور عملی طور پر ان کےلئے کوئی بھی غیر قانونی و غیر اخلاقی حرکت جائز ہو جاتی اور انہیں کسی کام کےلئے روکا نہیں جاسکتا تھا۔
امام خمینیؒ کو جیسے ہی اس عظیم خیانت کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کے خلاف وسیع پیمانہ پر کوششیں شروع کر دیں۔ ایران کے مختلف علاقوں میں قاصد بھیجے اور اس سازش کا پردہ چاک کرنے کی غرض سے ۲۰ جمادی الثانی ۱۳۸۳ھ ق کو تقریر کرنے سے متعلق ملت ایران کو اپنے فیصلے سے مطلع کیا۔ شاہ، اس صورت حال سے خوفزدہ ہو کر اپنا ایک نمائندہ قم بھیجا۔ امام خمینیؒ اس سے ملاقات کرنے سے قطعی انکار کر دیتے ہیں۔ آخرکار حکومت کا نمائندہ، امام خمینیؒ کے بڑے فرزند الحاج آیت ﷲ مصطفی خمینی کے ذریعہ یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ "امریکہ قوت و اقتدار کے لحاظ سے اس وقت اس منزل پر فائز ہےکہ اس کو کسی طرح کے بھی حملہ کا نشانہ بنانا ملک کی درجہ ایک شخصیت کو حملے کا نشانہ بنانے سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ آیت ﷲ خمینی اگر ان دنوں کوئی تقریر کرنا چاہیں تو انہیں احتیاط کرنا چاہئے کہ امریکہ کے خلاف کچھ نہ بولیں، کیونکہ یہ چیز بہت خطرناک ہوگی اور ان کی طرف سے نہایت ہی شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑےگا"۔
امام خمینیؒ نے مقررہ تاریخ میں کیپچولیشن کے خلاف تقریر کی اور اس میں آپ نے حکومت کی اس ذلت آمیز اسلام مخالف سازش کو سخت حملے کا نشانہ بناتے ہوئے علماء و مراجع، حوزات علمیہ، فوج اور ملت ایران کو ایک شدید خطرے سے خبردار کیا اور صاف صاف لفظوں میں فرمایا:
"صدر جمہوریہ امریکہ کو جان لینا چایئے کہ وہ آج ہماری ملت کی نظر میں منفورترین شخص ہے۔ آج ہماری مشکلات اسی کی کھڑی کی ہوئی ہیں"۔
امام خمینیؒ کی تقریر و بیانات سے ایران میں اعتراضات و مخالفت کی ایک نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی؛ شاہ کی حکومت نے امام خمینیؒ کو ملک بدر کرنے ہی عافیت سمجھی۔
پیغام کا اختتام/