مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ویانا میں ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے جنرل اسمبلی کے باسٹھویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے اعلی ایٹمی عہدیدار نے کہا کہ عالمی ادارے کی بارہ رپورٹوں میں تہران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی مکمل پابندی کیے جانے کی تصدیق کے باوجود امریکہ نے غیر قانونی طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی ہے۔
انہوں نے امریکہ کے اس فیصلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی کھلی خلاف ورزی اور مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کا مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی اقدام پر سامنے آنے والے عالمی ردعمل نے واشنگٹن کی ساکھ کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپ کے تدریجی اقدامات امریکی پالیسیوں کے مقابلے میں مناسب میکنیزم نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یورپ کو، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتس کو کمزور کرنے والے امریکی اقدامات کے مقابلے میں ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ایٹمی معاہدے کو باقی رکھا جاسکے۔
ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے ایک بار پھر ایران کے موقف کا اعادہ کیا کہ تہران انیس سو چوہتر سے آج تک مغربی ایشیا کے علاقے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی تجویز کی حمایت کر رہا ہے جبکہ علاقے کو حقیقی خطرہ اسرائیل اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں سے ہے۔
انہوں نے اسرائیل کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندیوں کے معاہدے میں شمولیت سے انکار اور عالمی معائنہ کاری کو بڑی بے شرمی کے ساتھ مسترد کیے جانے سے پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے بعض ملکوں کی لاتعلقی پر کڑی نکتہ چینی کی۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے آئی اے ای او کے سربراہ نے عالمی توانائی کے ادارے پر زور دیا کہ وہ ایٹمی تجربات اور جدید ترین آلات کی منتقلی میں ایران سمیت آئی اے ای اے کے تمام رکن ملکوں کی مدد کرے۔
انہوں نے کہا کہ ایران بجلی کی پیداوار، صحت کا معیار بلند کرنے اور زراعت کے علاوہ واٹرمینیجمنٹ اور موسمیاتی تبدیلوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال میں دلچسپی رکھتا ہے لہذا آئی اے ای اے کو اس سلسلے میں ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
پیغام کا اختتام/