مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انیس بہمن مطابق آٹھ فروری انیس سو اناسی کو ایران کے انقلابی علما، نیز سیاسی و مذہبی تنظیموں کی اپیل پر پورے ایران میں زبردست مظاہرے کئے گئے اور تہران کے مختلف علاقوں سے لوگوں نے ریلیوں کی شکل میں، انقلابی حکومت کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے آزادی اسکوائر کی طرف مارچ کیا۔
اسی دن صبح دس بجے ایرانی فوج اور فضائیہ کے افسران اور جوان فوجیوں نے وردیوں میں ملبوس، تہران کے علوی ہائی اسکول پہنچ کے فوجی پریڈ کی، امام خمینی رحمت اللہ کو سلامی دی اور آپ کی وفاداری کا اعلان کیا۔
دنیا بھر سے آئے ہوئے صحافیوں اور رپورٹروں نے اس منظر کی فلمیں، تصویریں اور رپورٹیں تیار کرکے ارسال کیں۔ اس تاریخ ساز واقعے کے بعد جہاں عوام کے اندر جوش ولولہ مزید بڑھ گیا اورفوجی جوان، انقلابیوں کی صفوں میں شامل ہونے لگے، وہیں شاہی کارندوں اور پہلوی زرخریدوں کی مایوسی بھی عروج پر پہنچ گئی۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فوج اور فضائیہ کے جوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ اب جبکہ آپ قرآن سے وابستہ ہوگئے ہیں تو، قرآن آپ کا محافظ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم آپ کی مدد سے ، یہاں اسلامی عدل و انصاف پر استوار حکومت قائم کرسکیں گے ۔
شام کو چھپنے والے ایک اخبار نے اس واقعے کی خبر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہمراہ فوج اور فضائیہ کے افسروں اور جوانوں کی تصویر کی ساتھ شائع کی۔
اس خبر کے شائع ہونے کے بعد، عوام جہاں بھی فوجیوں کو دیکھتے تھے انہیں گلے لگاتے تھے، ہار پہناتے تھے اور اپنے کندھوں پر اٹھالیتے تھے۔
فوجی بھی عوام کے اس حسن سلوک سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ وہ خود کو عوام کا ہی حصہ سمجھنے لگے تھے اور عوام اطمینان کے ساتھ فوجی گاڑیوں پر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تصاویر چسپاں کردیتے تھے۔
رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا کہ ایران میں دسیوں لاکھ افراد، آیت اللہ خمینی کی حمایت میں سڑکوں پر نکل پڑے ہیں۔ عوام کے مظاہروں کے دوران فضائیہ کے افسروں اور جوانوں کو بھی فوجی وردیوں میں ملبوس دیکھا جاسکتا ہے۔ فضائیہ کے ان افسروں اور جوانوں نے عوام کے درمیان آنے سے پہلے آیت اللہ خمینی کی قیامگاہ پر جاکے ان کی وفاداری کا اعلان کیا ہے۔
نیوز ایجنسیوں نے اس واقعے کی خبریں اور تصویریں پوری دنیا میں ارسال کیں۔ شاہ کے آخری وزیر اعظم شاپور بختیار نے اس واقعے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ تصویریں اصلی نہیں ہیں ، بنائی گئی ہیں۔ اس نے اسی کے ساتھ دھمکی دی کہ جو لوگ اس واقعے میں شریک ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
بری فوج کے کمانڈر بدرہ ای نے شاپور بختیار سے کہا کہ علوی ہائی اسکول میں فوجی پریڈ میں شریک اور امام خمینی سے وفاداری کا اعلان کرنے والے فوجیوں کی گرفتار کا حکم صادر کیا جائے۔
شاپور بختیار نے اعلان کیا تھا کہ امام خمینی کی قائم کردہ عبوری حکومت کے کسی بھی رکن کو وزارت خانوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن گیارہ وزارت خانوں کے ملازمین نے اعلان کردیا کہ وہ صرف انقلابی حکومت کے وزیر اعظم مہدی بازرگان کے احکام پر عمل کریں گے۔
ایران کی خفیہ تنظیم ساواک کے ڈائریکٹر، جنرل مقدم نے، ساواک کے مراکز پر حملے کی خبر ملنے کے بعد، اس تنظیم کے افسروں کو حکم دیا کہ سبھی خفیہ دستاویزات کو ضائع کردیا جائے۔
شاہ کے آخری وزیر اعظم شاپور بختیار نے آرمی چیف، جنرل قرہ باغی سے ملاقات میں تجویز پیش کی کہ فوج کے اسلحے کے گوداموں پر بمباری کردی جائے تاکہ آتشیں اسلحے عوام کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کو عوام کے ایک اجتماع سے خطاب میں، عبوری انقلابی حکومت کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ سبھی خبررساں اداروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایران میں یہ عظیم اجتماعات، دارالحکومت تہران سے لیکر دوسرے تمام شہروں اور قریوں تک جو مظاہرے ہورہے ہیں، وہ عبوری حکومت کی حمایت کے لئے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے جواب کے لئے کافی ہے جو کہتے ہیں کہ عوام بتائیں وہ کیا چاہتے ہیں، عوام اور کس طرح بتائیں؟ ادھر لیبیا کی حکومت نے ایرانی عوام کے انقلاب کی حمایت کا اعلان کردیا۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے ایک مختصر خطاب میں، جو ریڈیو اور ٹی وی کے ہڑتالی ملازمین کے زیر کنٹرول ٹی وی چینل سے براہ راست نشر ہوا، فرمایا کہ میڈیا اورذرائع ابلاغ عامہ کو عوام کی خدمت کے لئے ہونا چاہئے، لیکن غاصب شاہی حکومت نے ان سے اپنے ناجائز مفادات کے لئے کام لیا ہے۔
پیغام کا اختتام/