مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فرانس اور برطانیہ نے سلامتی کونسل کو ایک خط ارسال کرکے ایران کے میزائلی پروگرام اور میزائلی تجربات کا جائزہ لینے کے لئے بند کمرے میں سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی۔
اقوام متحدہ میں کویت کے مندوب منصورالعتیبی نے اس اجلاس کے بعد نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ایران کے میزائلی پروگرام اور تجربات کے بارے میں جو دعوی کیا گیا ہے اس پر سلامتی کونسل کے ارکان میں ایک رائے نہیں ہے۔
اجلاس سے قبل امریکی مندوب نیکی ہلی نے سلامتی کونسل سے کہا تھا کہ وہ ایران کے میزائلی پروگرام کی مذمت کرے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لاحاصل اجلاس کے خاتمے کے بعد ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا کہ امریکا کے ذریعے سلامتی کونسل کا غلط اور مضحکہ خیز استعمال معاہدوں پر عمل کرنے اور ان کی خلاف ورزی کرنے کے تعلق سے امریکی کوتاہیوں پر پردہ نہیں ڈال سکے گا۔
وزیرخارجہ ڈاکٹر جواد ظریف نے کہا کہ امریکی حکام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس ایران کی دفاعی توانائیوں کا راستہ نہیں روک سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس لئے بہتر ہے کہ اس قرارداد کو کمزور کرنے کے بجائے سب کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب دلائی جائے۔ اس درمیان اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندہ دفتر نے بھی اپنے ایک بیان میں قرارداد بائیس اکتیس کے بارے میں امریکا کے ذریعے ہر طرح کی خودسرانہ تشریح کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد ایران کے جائز اور قانونی میزائلی پروگرام اور اس سے متعلق سرگرمیوں کو منع نہیں کرتی۔
ایران کے نمائندہ دفتر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے میزائلی پروگرام سے مربوط سبھی سرگرمیاں پوری طرح سے قرارداد بائیس اکتیس سے ہم آہنگ ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ امریکا ایران پر سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہاہے کہ جس نے خود اس کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایران کے نمائندہ دفترکے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا نہ صرف یہ کہ دنیا کے ملکوں کو سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کرنےکے لئے مجبور کررہا ہے بلکہ دھمکیاں بھی دے رہا ہے کہ جو بھی اس قرارداد پر عمل کرے گا امریکا اس کے خلاف پابندیاں عائد کردے گا۔
اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندہ دفتر نے اپنے بیان میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران کے میزائلی پروگرام صرف روایتی وارہیڈز لے جانے والے میزائلوں کے لئے ہیں اور کوئی بھی بیلسٹک میزائل ایٹمی وارہیڈز لےجانے کے لئے ڈیزائن نہیں کیا گیا، کہا گیا ہے کہ ایران نے کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی اور آئندہ بھی وہ ایسا نہیں کرے گا۔