مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صدر مملکت نے غیرملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روسی اور ترک ہم منصبوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات موثر اور مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ شام میں امن و سلامتی کا قیام، نئے آئین کا نفاذ، جمہوری حکومت کی مضبوطی، پناہ گزینوں کی واپسی اور شام کی تعمیر نو ہمارے مقاصد میں شامل ہیں.
صدرحسن روحانی کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ امریکہ داعش کے دہشتگردوں کے ایک حصے کو افغانستان منتقل کررہا ہے جس سے وسطی ایشیا اور دیگر خطے کو شدید خطرات لاحق ہوں گے.
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق اگر امریکہ شام سے اپنی فوج واپس بلا بھی لے تو شام میں امریکی مداخلت کا سلسلہ پھر بھی جاری رہے گا.
ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ امریکہ، شام سے متعلق کوئی بھی فیصلہ شامی عوام کو ہی کرنے دے.
انہوں نے کہا کہ شام میں صہیونی مداخلت اور جارحیت وہاں کے عوام اور دیگر علاقائی قوموں کے لئے نہایت قابل تشویش بات ہے، صہیونی حکمران جب چاہیں شام اور لبنان کی فضائی حدود میں طیاروں کے ذریعے بمباری کرواتے ہیں اور بدقسمتی سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے خاموش ہیں.
واضح رہے کہ روسی حکومت کی میزبانی میں شام سے متعلق سہ فریقی سربراہی اجلاس گزشتہ روز روسی شہر سوچی میں منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر حسن روحانی، ولادیمیر پوتین اور رجب طیب اردوغان شریک ہوئے.
صدر حسن روحانی اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد آج تہران واپس پہنچ گئے۔
پیغام کا اختتام/