مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق چار سو فلسطینی قیدیوں نے گزشتہ اتوار سے جیلوں کی ابتر صورت حال، بنیادی انسانی سہولتوں کے فقدان اور قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے خلاف بھوک ہڑتال کی ہے۔
بھوک ہڑتال کرنے والے متعدد فلسطینی قیدیوں کی حالت غیر ہو گئی ہے اور کئی کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
توقع کی جارہی ہے کہ ایک ہزار سے زائد دوسرے فلسطینی قیدی بھی عنقریب اس بھوک ہڑتال میں شامل ہو جائیں گے۔
تقریبا سات ہزار فلسطینی قیدی اسرائیل کی مختلف جیلوں میں بند ہیں جن میں سے ایک ہزار آٹھ سو سے زائد، صحت کی بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے سرطان اور دوسری بیماریوں میں متبلا ہو چکے ہیں۔
فلسطین کی قومی اور مزاحمتی تنظیموں نے فلسطینی قیدیوں کی جان بچانے کے لئے عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی تنظیموں نے تمام فلسطینی شہریوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ سترہ اپریل کو یوم اسیران فلسطین کے موقع پر آزاد اور مقبوضہ فلسطین میں مظاہرے کرکے قیدیوں کے حق میں آواز بلند کریں۔
ادھر فلسطین کی جہاد اسلامی پارٹی نے اسرائیلی جیلوں میں بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کے اصولی مطالبات کی حمایت جاری رکھے گی۔
جہاد اسلامی فلسطین نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں قیدیوں کے حقوق کے لیے ہر طرح کی جدوجہد کی پابند ہیں اور ان کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
درایں اثنا غزہ میں حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی کے لیے قائم مشترکہ کمیٹی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کا سلسلہ بند کرائے۔
حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی کمیٹی کے جاری کردہ بیان میں پرامن فلسطینی مظاہرین کے خلاف اسرائیلی فوج کے حملوں اور جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے والے، اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں پر عمل کرتے ہوئے عام شہریوں اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کی ٹھوس اور موثر حمایت کریں۔
واضح رہے کہ جمعے کے روز "اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کے خلاف متحدہ جدوجہد" کے عنوان سے ہونے والے چوّن ویں واپسی مارچ پر صیہونی فوجیوں کی وحشیانہ فائرنگ میں پندرہ سالہ فلسطینی لڑکی شہید اور درجنوں فلسطینی زخمی ہو گئے تھے جن میں امدادی کارکن اور صحافی بھی شامل ہیں۔
پیغام کا اختتام/