مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، افغان طالبان کے سابق لیڈر ملا اختر منصور سے متعلق یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں مرنے سے قبل انہوں نے پاکستان میں جعلی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے ایک نجی کمپنی سے ’لائف انشورنس‘ پالیسی خریدی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ملا منصور اور ان کے مفرور ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے معاونت کے مقدمے کی سماعت کے دوران سامنے آئی۔
کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ملا منصور اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج مقدمے کی سماعت میں انشورنس کمپنی کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی۔
تحقیقات میں پتا لگا کہ طالبان لیڈر اور ان کے ساتھی ’جعلی شناختوں‘ کی بنیاد پر جائیدادوں کی خریداری کے ذریعے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں ملوث تھے، انہوں نے کراچی میں 3 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کے پلاٹس اور گھروں سمیت 5 جائیدادیں خریدی تھیں۔
ادھر ایف آئی اے میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جب معاملہ عدالت آیا تو تفتیشی افسر، آئی جی آئی جنرل انشورنس لمیٹڈ کے عہدیدار کے ہمراہ پیش ہوا اور کمپنی کی جانب سے ایک رپورٹ جمع کروائی گئی۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملا اختر منصور نے جعلی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے ایک ’لائف انشورنس‘ پالیسی خریدی اور انہوں نے 21 مئی 2016 کو ڈرون حملے میں مارے جانے سے قبل کمپنی کو 3 لاکھ روپے بھی ادا کردیے تھے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ملا منصور کی جانب سے ادا کی گئی اصل رقم کی واپسی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے انشورنس کمپنی نے عدالت میں جمع کرانے کے لیے 3 لاکھ روپے مالیت کا چیک تفتیش کاروں کو پیش کیا تاکہ یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع ہوسکے۔
تاہم ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ’ایف آئی اے کے تفتیش کاروں نے کمپنی کو یہ کہہ کر چیک واپس کردیا کہ وہ اصل رقم کے ساتھ ساتھ پریمیئم بھی دے تاکہ پوری رقم حکومتی خزانے میں جمع ہوسکے‘۔
علاوہ ازیں عدالتی ذرائع نے ڈان کو تصدیق کی کہ ہفتے کو انشورنس کمپنی نے 3 لاکھ 50 ہزار روپے مالیت کا چیک عدالت میں جمع کروایا، جو 24 ستمبر کے اس حکم پر تھا جس میں کمپنی کو کہا گیا تھا کہ وہ طالبان رہنما کے مرنے سے قبل لائف انشورنس پالیسی کے لیے جمع کی گئی رقم کو جمع کروائے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی ہدایت پر کراچی میں ملا منصور کی ملکیت میں موجود ایک جائیداد کو 92 لاکھ روپے میں نیلام کیا گیا اور یہ رقم عدالت کے ناظر کے پاس جمع کروائی تاکہ اسے حکومت کے خزانے میں جمع کیا جائے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور پشاور کے مختیار کاروں (لینڈ ریونیو افسران) کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی دوبارہ جاری کردیے گئے۔
یہ وارنٹ متعلقہ رپورٹ کہ آیا طالبان رہنما اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی جائیدادیں تھیں، جمع کرانے کے لیے عدالت میں پیش نہ ہونے پر جاری کیے گئے۔
اس سے قبل عدالت نے پشاور اور کوئٹہ میں متعلقہ حکام کو حکم دیا تھا کہ وہ عدالتی ہدایات کے باوجود رپورٹس جمع نہ کرنے پر ان دونوں افسران کی تنخواہیں روکیں۔
علاوہ ازیں جج کی جانب سے 2 نجی بینکوں الائیڈ بینک لمیٹڈ اور بینک الفلاح سے بھی افغان طالبان رہنما اور/ یا ان کے ساتھیوں کی جانب سے مبینہ طور پر حاصل اور چلائے جانے والے اکاؤنٹس کی رپورٹس کے ساتھ ہی جمع کروائی گئی رقم/ لین دین کی تفصیلات کے ساتھ طلب کرلی۔