مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی ایک اعلی وفد کے ہمراہ تہران کے دورے پر ہیں ۔ جہاں ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے ان کا سرکاری طور پر شاندار استقبال کیا۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے تہران میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور قطر کے تعلقات اچھے پڑوسی ہونے کی حیثیت سے مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہیں۔ امیر قطر نے کہا کہ میرا تہران کا دورہ اس بات کا مظہر ہے کہ ہم تہران کے ساتھ وسیع بنیادوں پر تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ ایران نے بعض عرب ممالک" سعودی عرب، بحرین، امارات اور مصر " کی طرف سے قطر کے سیاسی اور اقتصادی محاصرے کے دوران قطر کا بھر پور تعاون کیا ۔ ہم مشکل شرائط میں ایران کے تعاون کے شکر گزار ہیں۔
ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی نے بھی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور قطر کے تعلقات اچھی اور مطلوب سطح پر ہیں۔ ہم قطر کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ صدر رئیسی نے کہا کہ باہمی ملاقات میں علاقائي اور عالمی سطح پر مشترکہ مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ ہم غیر علاقائی طاقتوں کی خطے میں موجودگي کو خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
دونوں ممالک نے یمن کی صورتحال پربھی تبادلہ خیال کیا ، دونوں ممالک نے یمن کے محاصرے کو جلد از جلد ختم کرنے پر تاکید کی ہے۔ افغانستان کے بارے میں بھی دونوں ممالک کی جامع اور مشترکہ نظر ہے کہ افغانستان میں ہمہ گیر اور بامع حکومت کی تشکیل بہت ضروری ہے۔
دونوں ممالک نے فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی اور غزہ کا محاصرہ فوری طور پر ختم کرنے کے سلسلے میں بھی تاکید کی ہے ۔
سید ابراہیم رئیسی نے فلسطین کی خاتون صحافی شیریں ابوعاقلہ کی شہادت پر تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جرائم بڑھتے جارہے ہیں، اسرائيل کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی ہونی چاہیے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے مجرمانہ جرائم کو روکنے کے لئے اسلامی ممالک میں اتحاد اور یکجہتی ضروری ہے۔
صدر رئیسی نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر قطر کا اسلامی جمہوریہ ایران کا دورہ دونوں ممالک اور دونوں قوموں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگا اور یقیناً ایران اور قطر کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم پیشرفت ہوگی۔ میں ایک بار پھرں قطر کے امیر اور ان کے ساتھیوں کا خیر مقدم کرتا ہوں، اور مجھے امید ہے کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے لیے باعث برکت ہوگا۔