مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی صحافی کی گمشدگی پر ریاض اور واشنگٹن میں کشیدگی جاری ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ پابندی لگائی گئی یا کسی بھی طرح جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب برطانیہ اور امریکا نے جدہ میں شیڈول سرمایہ کاری کانفرنس کے بائیکاٹ پر غور شروع کردیا ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی سعودی عرب میں شاہی خاندان کی جانب سے اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات کے مخالف تھے اور اکثر ان پر تنقید کرتے تھے۔
وہ 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہوگئے تھےجبکہ ترکی نے انہیں قتل کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
صحافی کی گمشدگی پر ترکی کے سخت ردعمل کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی صحافی کے سعودی قونصل خانے میں مبینہ قتل پر سعودی عرب کوسخت ترین سزا کی دھمکی دی تھی ۔
دوسری جانب یورپ کے اہم ممالک برطانیہ، فرانس، اور جرمنی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ اس کیس کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ تینوں ممالک کا اپنے مشترکہ بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ معاملے کے حقائق سے آگاہی کے لیے معتبر تحقیقات ہونی چاہیے،جس میں اگر صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی میں ملوث افراد کی نشاندہی ہوتی ہے تو انہیں کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم توقع کرتے ہیں سعودی عرب کی حکومت اس سلسلے میں بھرپور تعاون کرے گی ۔ تاہم امریکی سینیٹرز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ریاض میں عنقریب منعقد ہونے والے اقتصادی اجلاس کا بائیکاٹ کیا جائے اور یمن میں سعودی فوج کی مدد بھی روک دی جائے۔
پیغام کا اختتام/