مباہلہ آیہ تطہیر کی طرح اہل بیت ﴿ع﴾ کے مقام اور حقانیت کو متعارف کرواتا ہے لہذا انسانیت کو چاہئے کہ اس خاندان کے دسترخوان پر اکھٹی ہو اور ان سے دوری بشریت کو مصائب و مشکلات سے دوچار کر دے گا۔
اسلامی کلینڈر میں ۲۴ ذی الحجہ کا دن روز مباہلہ کے عنوان سے معروف ہے۔ مباہلہ کا واقعہ نہ صرف پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ آپ کے ساتھ مباہلے کے لئے نکلنے والوں یعنی حضرت علی ﴿ع﴾، حضرت فاطمہ ﴿س﴾، حضرت امام حسین و حسین ﴿ع﴾ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت امام علی ﴿ع﴾ آیہ مباہلہ کی رو سے نفس اور جانِ پیغمبر ﴿ص﴾ کے مقام پر فائز ہیں۔ مباہلہ کا واقعہ ہجرت کے نویں سال ۲۴ ذی الحجہ کو پیش آیا۔ سورہ آل عمران کی آیہ ٦١ میں اس واقعے کا بیان آیا ہے۔ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ؛ پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں
به مناسبت سالروز این جریان تاریخی و بررسی و تطبیق روایات متعدد شیعه و سنی در خصوص این واقعه با حجتالاسلام امیرعلی حسنلو مدیر گروه تاریخ و سیره مرکز مطالعات و پاسخگویی به شبهات حوزه علمیه به گفتوگو پرداختیم که در ادامه حاصل آن را میخوانید:
مہر خبر رساں ایجنسی نے روز مباہلہ کی مناسبت سے اس تاریخی واقعے کے مختلف پہلووں کا جائزہ لینے کے لئے حوزہ علمیہ کے مطالعاتی اور شہبات کی جوابگوئی کے ادارے میں تاریخ اور سیرت کے شعبے کے سربراہ حجة الاسلام امیر علی حسنلو سے گفتگو کی۔
مباہلہ کی تاریخ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ در حقیقت مباہلہ اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے نفرین کی درخواست کرنا ہے جس میں طرفین میں سے ہر ایک اپنے حق پر ہونے کا دعویدار ہوتا ہے۔ مباہلہ گزشتہ انبیا کے زمانے میں بھی رائج تھا جیسے کہ حضرت نوح کا اپنی قوم سے، حضرت موسی کا فرعون سے اور حضرت ابراہیم کا نمرود سے مباہلہ کہ جنہوں نے علم و منطق سے عبودیت کا تسلیم نہیں کیا اور درنہایت انبیا کے بدعا اور نفرین کی سبب ہلاک ہوگئے۔ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کا نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ صدر اسلام کے ان واقعات میں سے ہے کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے اور ان سے ساتھ نکلنے والوں یعنی یعنی حضرت علی ﴿ع﴾، حضرت فاطمہ ﴿س﴾، حضرت امام حسین و حسین ﴿ع﴾ کی فضیلت اوران کی راہ و روش کی حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک واقعہ تھا کہ جسے رونما ہونا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پنجتن آل عبا کے حجت ہونے اور حق ہونے کا اعلان تمام دنیا والوں تک پہنچ جائے۔
شیعہ اور اہل سنت تواریخ میں اس واقعے کا بیان تسلسل کے ساتھ موجود ہے اس آیت کی رو سے حضرت امام علی ﴿ع﴾ نفسِ پیغمبر ہیں۔
مباہلہ کا واقعہ حجة الوداع سے پہلے پیش آیا ہے اور شیخ مفید کے بقول واقعہ مباہلہ میں حضرت علی اور اہل بیت کے عالمگیر مقام کو روشناس کروایا گیا ہے چونکہ مد مقابل عیسائیت تھی اور عیسائی راہبوں اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم دو بچوں، ایک خاتون اور حضرت علی کے ساتھ مباہلے کے میدان کی طرف آرہے ہیں، انہوں نے یہ منظر دیکھتے ہیں پسپائی اختیار کی۔
مباہلہ کا واقعہ کہ جو حضرت علی اور اہل بیت کے مقام و فضیلت کو بیان کرتا ہے غدیر کی طرح ریاستی اور سیاسی تاریخ نگاری میں سنسرشپ سے دوچار ہوا ہے۔ کچھ مورخین نے اس کے لئے کسی مخصوص سال کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے سال کا ذکر تک ہی نہیں کیا۔ یہ واقعہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی حیات کے آخری سالوں میں پیش آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلام کی گونج دنیا کے تمام گوشوں تک پہنچ چکی تھی اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے تمام ممالک کے سربراہان اور مختلف اقوام اور قبائل کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی تھی۔ انہی خطوط میں سے ایک خط نجران کے عیسائیوں کے لئے بھی تھا۔
در حقیقت مباہلہ کے واقعے میں اسلام کو قیصر روم کے نمائندوں پر ایک عظیم فتح نصیب ہوئی جو فتح خیبر اور مکہ کے بعد حاصل ہوئی۔ یہ فتح اسلام کے عالمگیر ہونے اور دوسرے ادیان کے خاتمے اور اسلام کے سامنے ان کے تسلیم ہونے کا مظہر ہے۔ دوسری جانب سے اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ حضرت علی اور اہل بیت ہر بڑی فتح کے موقع پر پیغمبر کے ہمراہ تھے اور ان کا کردار بنیادی تھا۔ مباہلہ دنیا والوں کو دین کے تسلسل کے لئے حضرت علی اور اہل بیت کے تعارف کا تسلسل ہے اور ایک طرح سے اسلام کی علی اور اہل بیت کے ساتھ معیت کا عمومی اعلان ہے۔ مباہلہ کے بعد حجة الوداع اور پھر غدیر ہے کہ جہاں مسلمانوں پر دوبارہ حجت تمام کی گئی۔
مباہلہ کے دو اہم اور بڑے درس ہیں۔ پہلا درس تمام انسانیت اور آسمانی کتابوں کے پیروکاروں منجملہ عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے ہے جبکہ دوسرا درس اہل اسلام کے لئے ہے۔ اہل اسلام کے لئے درس کے ذیل میں بہت سے نکات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے تو مباہلہ میں تمام انسانوں اور تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں خاص طور پر عیسائیوں کے لئے عظیم درس ہیں۔ آج کی عیسائیت بھی کہ جو اللہ پر ایمان رکھنے کی دعویدار ہے، بہتر ہے کہ مباہلہ کے بارے میں مطالعہ اور غور و فکر سے کام لیں اور اس واقعے کو مدنظر رکھ کر اسلام کا مزید جائزہ لیں۔ نجران کے عیسائیوں کے لئے اسلام کی حقانیت ثابت ہوئی جبکہ وہ پوری عیسائیت کے نمائندہ تھے لہذا بقیہ ادیان کے پیروکاروں کو بھی سوچنا چاہئے۔
دوسرے یہ کہ حدیث میں آیا ہے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ اللہ تعالیٰ مباہلے کے واقعے میں اپنے رسول کو تعلیم دے رہا ہے کہ ایسے حالات بھی پیش آجاتے ہیں کہ دعا کا سہارا لینا پڑتا ہے اور دعا سے غفلت نہیں کرنی چاہئے۔ مظلوم کی نفرین بھی دعا ہے جو کہ مومن کا ہتھیار ہے۔
تیسرے یہ کہ اپنے خانوادے کے ساتھ دعا کرنا کہ پیغمبر اکرم مباہلے کے میدان میں اپنے گھر کے بہترین افراد اور روئے زمین پر موجود پاکیزہ ترین انسانوں کو ساتھ لائے۔ در نتیجہ دعا کو اجتماعی طور انجام دینا چاہئے۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ اجتماعی دعا ترجیح رکھتی ہے اور جلد قبول ہوتی ہے۔
مباہلہ کا ایک پیغام اور درس یہ ہے کہ معلوم ہوسکے اہل بیت پیغمبر کون ہیں؟ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ حسن و حسین و فاطمہ و علی اور خود پیغمبر کی ذات گرامی اہل بیت کے مصداق ہیں۔
مباہلہ کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ علی ابن ابی طالب پیغمبر اکرم کی جان اور جانشین ہیں۔ آیت میں انفسنا کی تعبیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
مباہلہ کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ دین اسلام اور پیغمبر اکرم کی رسالت عالمگیر ہیں۔ بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ اسلام عربوں یا کسی مخصوص قوم سے مخصوص ہے تاہم مباہلہ نے اسلام کی عالمگیریت کو عملی طور پر ثابت کیا اور جب عیسائیوں نے مباہلے سے انکار کیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ مباہلے کی صورت میں ہلاک ہوجائیں گے لہذا اسلام اور اہل بیت سے مخالفت کا نتیجہ ہلاکت ہوگا۔