مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بہروز کمالوندی نے یہ بات ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کیے جانے کی تصدیق کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں امریکی صدر کے ممکنہ اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی۔ایران کے محکمہ ایٹمی توانائی کے ترجمان نے واضح کیا کہ امریکی صدر کی جانب سے جامع ایٹمی معاہدے کے تحت ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو معطل رکھنے کی مدت میں توسیع نہ کرنا ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے آئے گا اور اسلامی جمہوریہ ایران بھی اس کے خلاف لازمی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
بہروز کمالوندی نے ایران کے محکمہ ایٹمی توانائی کے سربراہ علی اکبر صالحی اور آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا آمانو کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے واضح کردیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے وعدے پورے نہ کرنے کی صورت میں کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ایران پچھلے دو برس کی طرح آئی اے ای اے کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ایران کو توقع ہے کہ آئی اے ای اے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایٹمی معاہدے کو سبوتاژ کرنے سے روکنے کی غرض سے اپنا کردار کرے گی۔انہوں نے کہا کہ آئی اے ای اے کے سربراہ یوکیا آمانو پانچ جمع ایک گروپ کے ارکان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ایران کا پیغام ان تک پہنچائیں گے۔ایران اور پانچ جمع ایک گروپ نے، جس میں امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی شامل ہیں، سن دو ہزار پندرہ میں جامع ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے توثیق کی تھی۔اس معاہدے پر جنوری دو ہزار سولہ میں عملدرآمد شروع ہوا تھا لیکن معاہدے کے ایک فریق کی حثیت سے امریکہ اپنے وعدوں کی تکمیل سے گریز کرتا آرہا ہے۔ایران پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ جب تک معاہدے پر دستخط کرنے والے دوسرے فریق اس کی پابندی کریں گے ایران بھی اس کا پابند رہے گا لیکن امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے کی صورت میں ایران بھی جوابی اقدامات انجام دے گا۔
پیغام کا اختتام/