مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سینچری ڈیل کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد کے زیرعنوان فلسطینیوں کی نیشنل کانفرنس غزہ میں ہوئی جس میں فلسطینی گروہوں اور تنظیموں نے شرکت کی۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اس کانفرنس میں خطاب کے دوران سبھی فلسطینی گروہوں سے کہا ہے کہ وہ سینچری ڈیل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں۔
انہوں نے کہا کہ حماس ایسی کسی بھی ملاقات اور دورے کی مخالفت نہیں کرے گی جو فلسطینیوں کے درمیان اختلافات کے حل کے لئے انجام پائے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے امریکی اور صہیونی سازشوں منجملہ سینچری ڈیل کو خطرناک قراردیا اور انروا کی سرگرمیوں کو روک دیئے جانے، جولان کو غیرقانونی طریقے سے اسرائیل میں ضم کردینے اور غرب اردن اور غزہ کے مابین سیاسی اعتبار سے جدائی پیدا کردینے کے اقدامات کی بابت خبردار کیا۔
جہاد اسلامی فلسطین کے سیاسی دفتر کے رکن نافذ عزام نے بھی سینچری ڈیل کو فلسطین اور عرب علاقوں کے لئے خطرہ بتایا اور کہا کہ اسلامی مقدسات کی حفاظت ، فلسطینی شہدا اور زخمیوں کے خون سے وفاداری اور امریکی منصوبے سینچری ڈیل کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ فلسطینیوں کے درمیان اتحاد ہے۔
حماس کے ایک اور رہنما صلاح البردویل نے بھی اس کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ سینچری ڈیل کا مقابلہ کرنے کے سب سے پہلے ضروری ہے کہ فلسطین کے سبھی گروہوں کی طاقت کو یکجا کیا جائے اور پھر امت اسلامیہ اور عرب دنیا کو مسئلہ فلسطین کے تعلق سے متحد بنایا جائے۔
واضح رہے کہ سینچری ڈیل ایک خطرناک امریکی منصوبہ ہے جس میں فلسطینیوں کے حقوق کو ختم کردینے کی بات کی گئی ہے۔
امریکا نے یہ خطرناک اور شرمناک منصوبہ بعض عرب ملکوں منجملہ سعودی عرب کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد تیار کیا ہے۔
سینچری ڈیل کے مطابق بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کردیا جائےگا، دیگر ملکوں میں پناہ لئے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپس لوٹنے کی اجازت نہیں ہوگی اور فلسطینیوں کی حکمرانی صرف غرب اردن میں باقی بچے حصے اور غزہ کے ہی علاقے پر ہوگی۔
ایک ایسے وقت جب سینچری ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کا کام بھی شروع ہوچکا ہے فلسطین کے سیاسی گروہوں نے ابھی تک اس منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی خاص اقدام نہیں کیا ہے البتہ ستائیس اپریل کو فلسطینی گروہوں نے فلسطین قومی محاذ کے نام سے جو اتحاد تشکیل دیا ہے وہ اس سلسلے میں پہلا قدم شمار ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا نے اپنی خودسرانہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑنے کی جو روش انپا رکھی ہے وہ تو اپنی جگہ پرہے ہی، لیکن ان حکومتوں نے سینچری ڈیل منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے فلسطینی گروہوں خاص طور پر فتح اور استقامتی گروہوں کے درمیان اختلافات کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے تاہم اس وقت جہاد اسلامی اور حماس نے اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو یکجا کرکے سنیچری ڈیل کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے عزم کا اعلان کردیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اگر عالم اسلام میں اختلافات اور ٹرمپ کی پالیسیوں کے لئے بعض ملکوں کی حمایت نہ ہوتی تو آج ٹرمپ اور نتنیاہو کے اندر فلسطینی علاقوں اور شام کی جولان کی پہاڑیوں پر دست درازی کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔
پیغام کا اختتام/