مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے الجزیرہ کے ساتھ گفتگو میں افغان حکومت کی کمزوری اور ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں تو کیا اس کا ذمہ دار پاکستان ہے؟ قریشی نے کہا کہ بہت ہوگیا اب پاکستان پر الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر نہ ڈالی جائے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی، ہماری 80 ہزار شہادتیں ہوئیں، ہمیں 150 بلین ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا، ہم نے 20 لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز کو سنبھالا، دنیا شاید بھول گئی کہ ہم 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے چلے آرہے ہیں جب کہ 9/11 کا ذمہ دار بھی پاکستان نہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب امریکہ کی جانب سے افغانستان میں آپریشن شروع کیا گیا تو ہم سے مشاورت نہیں کی گئی، ہمیں اپنے علاقے اور لوگوں کو محفوظ بنانے کے لیے تردد کرنا پڑا، ہماری قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور ہمیں جواباً ڈو مور کا طعنہ دیا جاتا رہا، جب ہم نے خلوص نیت کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم دنیا کو بتاتے رہے کہ جو حکومت افغانستان پر مسلط کی گئی ہے اسے سیاسی حمایت حاصل نہیں، وہاں کرپشن اور ناکام طرز حکمرانی کا دور دورہ ہے مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے، جب دوحہ میں ایک سال تک اشرف غنی کی سنی جاتی رہی جو بین الافغان مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہم کہتے رہے کہ مذاکرات اور انخلاء کے عمل کو ساتھ ساتھ چلتے رہنا چاہیے لیکن اچانک انخلاء کا فیصلہ ہماری رائے لیے بغیر کیا گیا، اب جو عالمی برادری کو چیلنج درپیش ہے وہ کابل سے ان کے شہریوں کے محفوظ انخلاء کا ہے، ہم اس حوالے سے بھی مثبت اور تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اس لیے ہمیں سیاسی تصفیے کی جانب بڑھنا ہوگا، طالبان کی جانب سے منظر عام پر آنے والے حالیہ بیانات حوصلہ افزا ہیں جن سے ایک نئی سوچ کا پتہ چلتا ہے اور ہمیں بھی اعتدال پسند طبقے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔