مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے ان کی تقریر کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔
گزشتہ روز ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خفیہ ایجنسی پر عدالتی امور میں مداخلت سمیت سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ خوف و جبر کی فضا کی ذمہ دار عدلیہ پر بھی ہے جب کہ میڈیا والے بھی گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور سچ نہیں بتا سکتے، میڈیا کی آزادی بھی بندوق کی نوک پر سلب ہو چکی ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کل چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے ایک جج کا بیان پڑھا جس پر بہت افسوس ہوا، عدلیہ کے سربراہ کے طور پر یقین دلاتا ہوں کہ ہم پر کسی کا دباؤ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پوری طرح آزاد اور خود مختار کام کررہے ہیں، ہمارے ججوں پر کہیں کوئی دباؤ نہیں، اس طرح کے بیانات ناقابلِ فہم اور ناقابلِ قبول ہیں، جائزہ لیں گے کہ جج کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہوسکتی ہے، ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے اور حقائق قوم کے سامنے لائیں گے، میں سختی کے ساتھ واضح کررہا ہوں کہ ہم پر کوئی دباؤ نہیں۔
دوسری جانب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کو خط ارسال کیا ہے جس کے متن میں کہا گیا ہے انہوں نے کل اپنی تقریرمیں بغیرخوف کے موجودہ صورتحال پرحقائق بیان کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جن حقائق کی بات کی اس کی تصدیق کے لیے کمیشن بنایا جائے اور یہ انکوائری کمیشن پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج کی سربراہی میں بنایا جائے۔
در ایں اثنا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ معزز جج کے الزامات کی انکوائری کرائے۔
پیغام کا اختتام/