مقدس دفاع نیوز ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آسمان امامت اور ولایت کے نویں درخشاں ستارے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: دین کوتباہ کردینے والی چیز"بدعت " اور انسان کوبرباد کرنے والی چیز”لالچ“ ہے۔ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ بمطابق ۸۱۱ ء یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے تھے ۔
نام کنیت اورالقاب
آپ کااسم گرمی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ”محمد“ رکھا آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ اورآپ کے القاب جواد،قانع، مرتضی تھے اورمشہورترین لقب تقی تھا ۔
حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے بعض ارشادات
یہ ایک مسلہ حقیقت ہے کہ بہت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اہل بیت (ع) کی تعلیم حاصل کی، آپ کے مختصرحکیمانہ اقوال کابھی ایک عظیم ذخیرہ ہے، حضرت علی علیہ السلام کے بعدامام محمدتقی علیہ السلام کے اقوال کوایک خاص درجہ حاصل ہے بعض علماء نے آپ کے اقوال کی تعداد کئی ہزاربتائی ہے علامہ شبلنجی بحوالہ فصول المہمہ تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کااراشادہے کہ :
۱ ۔ خداوندعالم جسے جونعمت دیتاہے بہ ارادہ دوام دیتاہے ، لیکن اس سے وہ اس وقت زائل ہوجاتی ہے جب وہ لوگوں یعنی مستحقین کودینابندکردیتاہے ۔
۲ ۔ ہرنعمت خداوندی میں مخلوق کاحصہ ہے جب کسی کوعظیم نعمتیں دیتاہے تولوگوں کی حاجتیں بھی کثیرہوجاتی ہیں اس موقع پراگرصاحب نعمت ( مالدار) عہدہ برآہوسکاتوخیرورنہ نعمت کازوال لازمی ہے۔
۳ ۔ جوکسی کوبڑاسمجھتاہے اس سے ڈرتاہے۔
۴ ۔ جس کی خواہشات زیادہ ہوں گی اس کاجسم موٹاہوگا۔
۵ ۔ صحیفہ حیات مسلم کاسرنامہ ”حسن خلق“ ہے۔
۶ ۔ جوخداکے بھروسے پرلوگوں سے بے نیازہوجائے گا، لوگ اس کے محتاج ہوں گے۔
۷ ۔ جوخداسے ڈرے گاتولوگ اسے دوست رکھیں گے۔
۸ ۔ انسان کی تمام خوبیوں کامرکززبان ہے۔ ۹ ۔ انسان کے کمالات کادارومدارعقل کے کمال پرہے ۔
۱۰ ۔ انسان کے لیے فقرکی زینت ”عفت “ ہے خدائی امتحان کی زینت شکرہے حسب کی زینت تواضع اورفروتنی ہے کلام کی زینت ”فصاحت“ ہے روایات کی زینت ”حافظہ“ ہے علم کی زینت انکساری ہے ورع وتقوی کی زینت ”حسن ادب “ ہے قناعت کی زینت ”خندہ پیشانی“ ہے
۱۱ ۔ ظالم اورظالم کامددگاراورظالم کے فعل کے سراہانے والے ایک ہی زمرے میں ہیں یعنی سب کادرجہ برابرہے۔
۱۲ ۔ جوزندہ رہناچاہتاہے اسے چاہئے کہ برداشت کرنے کے لیے اپنے دل کوصبرآزمابنالے۔
۱۳ ۔ خداکی رضاحاصل کرنے کے لیے تین چیزیں ہونی چاہئیں اول استغفار دوم نرمی اورفروتنی سوم کثرت صدقہ۔
۱۴ ۔ جوجلدبازی سے پرہیزکرے گا لوگوں سے مشورہ لے گا ،اللہ پربھروسہ کرے گاوہ کبھی شرمندہ نہیں ہوگا۔
۱۵ ۔ اگرجاہل زبان بندرکھے تواختلافات نہ ہوں گے ۱۶ ۔ تین باتوں سے دل موہ لیے جاتے ہیں ۱ ۔ معاشرہ انصاف ۲ ۔ مصیبت میں ہمدردی ۳ ۔ پریشان خاطری میں تسلی ۔
۱۷ ۔ جوکسی بری بات کواچھی نگاہ سے دیکھے گا، وہ اس میں شریک سمجھاجائے گا۔ ۱۸ ۔ کفران نعمت کرنے والاخداکی ناراضگی کودعوت دیاہے۔
۱۹ ۔ جوتمہارے کسی عطیہ پرشکریہ اداکرے، گویااس نے تمہیں اس سے زیادہ دیدیا۔
۲۰ ۔ جواپنے بھائی کوپوشیدہ طورپرنصیحت کرے وہ اس کاحسن ہے، اورجوعلانیہ نصیحت کرے،گویااس نے اس کے ساتھ برائی کی۔
۲۱ ۔ عقلمندی اورحماقت جوانی کے قریب تک ایک دوسرے پرانسان پرغلبہ کرتے رہتے ہیں اورجب ۱۸ سال پورے ہوجاتے ہیں تواستقلال پیداہوجاتاہے اورراہ معین ہوجاتی ہے ۔
۲۲ ۔ جب کسی بندہ پرنعمت کانزول ہواوروہ اس نعمت سے متاثرہوکریہ سمجھے کہ یہ خداکی عنایت ومہربانی ہے توخداوندعالم کاشکرکرنے سے پہلے اس کانام شاکرین میں لکھ لیتاہے اورجب کوئی گناہ کرنے کے ساتھ یہ محسوس کرے کہ میں خداکے ہاتھ میں ہوں، وہ جب اورجس طرح چاہے عذاب کرسکتاہے تو خداوندعالم اسے استغفارسے قبل بخش دیتاہے۔
۲۳ ۔ شریف وہ ہے جوعالم ہے اورعقلمندوہ ہے جومتقی ہے۔ ۲۴ ۔ جلدبازی کرکے کسی امرکوشہرت نہ دو، جب تک تکمیل نہ ہوجائے ۔
۲۵ ۔ اپنی خواہشات کواتنانہ بڑھاؤکہ دل تنگ ہوجائے۔ ۲۶ ۔ اپنے ضعیفوں پررحم کرو اوران پرترحم کے ذریعہ سے اپنے لیے خداسے رحم کی درخواست کرو۔
۲۷ ۔ عام موت سے بری موت وہ ہے جوگناہ کے ذریعہ سے ہو اورعام زندگی سے خیروبرکت کے ساتھ والی زندگی بہترہے۔
۲۸ ۔ جوخداکے لیے اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچائے وہ ایساہے جیسے اس نے اپنے لیے جنت میں گھربنالیا۔
۲۹ ۔ جوخداپراعتمادرکھے اوراس پرتوکل اوربھروسہ کرے خدااسے ہربرائی سے بچاتاہے اوراس کی ہرقسم کے دشمن سے حفاظت کرتاہے۔
۳۰ ۔ دین عزت ہے، علم خزانہ ہے اورخاموشی نورہے۔ ۳۱ ۔ زہدکی انتہاورع وتقوی ہے۔ ۳۲ ۔ دین کوتباہ کردینے والی چیزبدعت ہے۔
۳۳ ۔ انسان کوبربادکرنے والی چیز”لالچ“ ہے۔ ۳۴ ۔ حاکم کی صلاحیت رعایاکی خوشحالی کادارومدارہے۔ ۳۵ ۔ دعاکے ذریعہ سے ہربلاٹل جاتی ہے ۔
۳۶ ۔ جوصبروضبط کے ساتھ میدان میں آجائے وہ کامیاب ہوگا۔ ۳۷ ۔ جودنیامیں تقوی کابیج بوئے گا آخرت میں دلی مرادوں کاپھل پائے گا۔
امام محمدتقی کی نظربندی، قیداورشہادت
معتصم نے مدینہ الرسول(ص) سے فرزندرسول خدا (ص) کوبغداد طلب کرکے قیدکردیا، علامہ اربلی لکھتے ہیں ، کہ چون معتصم بخلافت بہ نشست آنحضرت راازمدینہ طیبہ بدارالخلافة بغداد آورد وحبس نمود(کشف الغمہ ص ۱۲۱( ۔
ایک سال تک آپ نے قیدکی سختیاں صرف اس جرم میں برداشت کیں کہ آپ کمالات امامت کے حامل کیوں ہیں اورآپ کوخدانے یہ شرف کیوں عطا فرمایاہے بعض علماء کاکہناہے کہ آپ پراس قدرسختیاں تھیں اوراتنی کڑی نگرانی اورنظربندی تھی کہ آپ اکثراپنی زندگی سے بیزارہوجاتے تھے بہرحال وہ وقت آگیا کہ آپ صرف ۲۵/ سال ۳ ماہ ۱۲/ یوم کی عمرمیں قیدخانہ کے اندرآخری ذیقعدہ (بتاریخ ۲۹/ ذیقعدہ ۲۲۰ ہجری یوم سہ شنبہ) معتصم کے زہرسے شہیدہوگئے (کشف الغمہ ص ۱۲۱ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ، روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ ، ارشاد ص ۴۸۰ ، انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ، انوارالحسینیہ ص ۵۴) ۔
آپ کی شہادت کے متعلق ملامبین کہتے ہیں کہ معتصم عباسی نے آپ کوزہرسے شہیدکیا (وسیلة النجات ص ۲۹۷) علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ آپ کوامام رضا (ع) کی طرح زہرسے شہیدکیاگیا(صواعق محرقہ ص ۱۲۳) علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ”گویند با زہرشہیدشد“ کہتے ہیں کہ آپ زہرسے شہیدہوئے (روضة الشہداء ص ۴۳۸) ۔ ملاجامی کی کتاب میں ہے ”قیل مات مسموما“ کہاجاتاہے کہ آپ کی وفات زہرسے ہوئی ہے (شواہدالنبوت ص ۲۰۴) ۔علامہ نعمت اللہ جزائری لکھتے ہیں کہ ”مات مسموما قدسمم المعتصم“ آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں اوریقینا معتصم نے آپ کوزہردیاہے، انوارالنعمانیہ ص ۱۹۵)
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ انہ مات مسموما آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں ”یقال ان ام الفضل بنت المامون سقتہ ،بامرابیہا“ کہاجاتاہے کہ آپ کوآپ کی بیوی ام الفضل نے اپنے باپ مامون کے حکم کے مطابق (معتصم کی مددسے) زہردے کرشہیدکیا (نورالابصارص ۱۴۷ ،ارحج المطالب ص ۴۶۰) ۔
مختصریہ کہ شہادت کے بعد امام علی نقی علیہ السلام نے آپ کی تجہیزوتکفین میں شرکت کی اورنمازجنازہ پڑھائی اوراس کے بعدآپ کاظمین میں اپنے جدنامدار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پہلومیں سپرد خاک کردیا۔