مقدس دفاع نیوز ایجنسی نے ایکس پریس کے حوالے سے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان سے تین گروپ پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں سرگرم ہیں، جنہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے فرانسیسی جریدے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن خطے کے امن کے لیے ناگزیر ہے، افغانستان سے تین گروپس پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں جنہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان گرپوں میں تحریک طالبان پاکستان، داعش اور بلوچ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجودہ عارضی سیٹ اپ کے بعد سے وہاں کوئی سنگین واقعہ پیش نہیں آیا، افغان حکومت سے کہہ دیا کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو اگر افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی ہوگی تو افغان عوام بھی متاثر ہوں گے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں چار کروڑ افراد رہتے ہیں، پاکستان افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کرسکتا، دنیا کو افغان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے کیوں کہ دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہیں ورنہ افغانستان میں کوئی انسانی المیہ بھی پیدا ہوسکتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ طالبان بھی ایسے اقدامات کریں کہ دنیا کا ان پر اعتماد بحال ہوجائے۔
عمران خان نے کہا کہ بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا، کشمیر کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے، خطے میں امن کے لیے بھارت سے بات ہوسکتی ہے تاہم اس کے لیے پہلے بھارت کو کشمیر پر لیا گیا یک طرفہ اقدام واپس لینا ہوگا اس اقدام کے بغیر بھارت سے کوئی بات کرنا کشمیریوں سے غداری کے مترادف ہوگا کیوں کہ دنیا تسلیم کرچکی ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جسے بھارت اپنی ریاست قرار نہیں دے سکتا۔
پاکستانی وزیر اعظم نے کہ میں اپنے ہندوستانی دوستوں کے لیے پریشان ہوں، بھارت میں آر ایس ایس کے نظریے پر کام ہورہا ہے وہاں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے، وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، میں نے امن کے لیے مودی کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر بدقسمتی سے مودی اآر ایس ایس کے انتہا پسند نظریے کا حامی ہے۔