مقدس دفاع نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹر رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے حقائق جاننے کے لیے کام کرنے والے آزاد مشن کے چیئرمین مرزیوکی دارعثمان نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ سوشل میڈیا نے میانمار میں نفرت انگیز تقاریر کو پھیلانے میں 'فیصلہ کن' کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا مسلمان گھروں کو چھوڑ کر ملک سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
انہوں نے کہا سوشل میڈیا تصادم، شدت اور اختلاف رائے بڑھانے میں شراکت دار ہوتا ہے اور نفرت انگیز تقاریر اس کا بڑا حصہ ہے۔ جہاں تک میانمار کی صورتحال کا تعلق ہے وہاں فیس بک ہی سوشل میڈیا ہے اور سوشل میڈیا ہی فیس بک ہے۔
فیس بک میانمار میں لوگوں کے لیے خبروں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جسے وہاں کے شہریوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا۔
اقوام متحدہ کی تفتیش کار یانگ ہی لی کا کہنا تھا کہ فیس بک کو عوامی پیغامات پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ انتہا پسند بدھسٹوں نے اسے روہنگیا مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کے خلاف بہت زیادہ تشدد اور نفرت پھیلانے کے لیے اسے استعمال کیا۔
ان کا کہنا تھا مجھے ڈر ہے کہ فیس بک اب ایک عفریت بن چکی ہے، جو اس کا اصل مقصد نہیں تھا۔
فیس بک کے ایک ترجمان کے مطابق نفرت انگیز تقاریر اور تشدد پر اکسانے کے حوالے سے اس کے اصول واضح ہیں اور کمپنی ان کی روک تھام کے لیے کام کررہی ہے۔
گزشتہ سال اگست سے جاری تنازعے کے نتیجے میں ساڑھے 6 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان میانمار کی ریاست راخین سے نقل مکانی کرچکے ہیں، ان میں سے بیشتر افراد نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے قتل عام اور اجتماعی زیادتی کے واقعات کا احوال بیان کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے اسے نسلی صفائی کی مثال قرار دیا۔
پیغام کا اختتام/